محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے، وطن عزیز کی سرحد پر کھڑی فوجیں اور جنگ کیلئے بے تاب ھندوستان جس ڈھٹاء سے الزام تراشی کر پاکستان پر ہر بدمزگی اور حملے کا الزام دھرتا ہے پاکستان کی طرف سے کبھی کسی دھشت گردانہ حملے پر ایسی الزام تراشی دیکھنے میں نہیں آء جہاں پوری ٹرین کاٹ ڈالی ہو اور اس میں فوجی جوان افسران شھید کردیئے گئیے ہوں اس وقت بھی ایسا گھنائونا الزام نہیں لگایا گیا بلکہ حملہ آوروں کو سزا دی گء اور انکو کیفر کردار تک پہنچایا گیا پاکستان ایک زمہ دار ریاست ہے اور طاقت ہے تو سنبھالنا جانتی ہے ۔مندرجہ زیل کالم غلام مصطفی نعیمی صاحب نے لکھا مجھے حقیقت سے قریب تر لگا تو اسکو نقل کردیا عموما میں خود لکھتا ہوں لیکن جب کسی کے خیالات سے متفق ہوں تو اسکا حوالہ دے کر زکر کردیتا ہوں کیونکہ موضوع انڈیا کی نیت اور غیر زمہ داری ہے ایسے میں درباریوں کا کیا ہوتا ہے کیسے وہ نظام سے مستفید ہوتے ہیں اس میں اشارات بیان ہوئے ہیں اب آپ پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ ھندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور کیسے مسلمان وہاں پسند کیئے جاتے ہیں بہت سی باتیں اس میں واضع ہیں ۔
مولانا’وحیدالدین خان ، راحت اندوری اور آر ایس ایس گزشتہ سال اگست 2020 میں مشہور شاعر راحت اندوری کا انتقال ہوا تھا۔تقریبا دس مہینے کے بعد ‘مولانا’ وحیدالدین خان بھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔دونوں ہی افراد بین الاقوامی سطح کی شہرت رکھتے تھے اور اپنے اپنے فیلڈ کے نامور شخص شمار کیے جاتے تھے۔اتنی یکسانیت کے باوجود دونوں میں خاصے تضادات بھی تھے، ظاہرا وحیدالدین خان صاحب ایک باشرع پابند صوم و صلو مسلمان اور عالم دین کی شناخت رکھتے تھے تو راحت اندوری ایک بے ریش اور دنیا دار شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کی نگاہ میں ایک بے ریش دنیا دار شاعر قابل تنقید تھا جبکہ ایک ‘دین دار عالم’ قابل تعریف تھا !راحت صاحب کے انتقال کے بعد آر ایس ایس کی ہفتہ واری میگزین ‘پانچ جنیہ’ میں ڈاکٹر رام کشور اپادھیائے نے ایک تنقیدی مضمون لکھا تھا۔اپنے مضمون میں انہوں نے راحت صاحب کی شاعری پر نقد کرتے ہوئے کہا تھا! کہ ان کی شاعری میں جہاں جہاں ہندوستان پر فخر کیا گیا وہ گاندھی کا ہندوستان نہ ہوکر مغلیہ ہندوستان ہے جس کے سلطان مسلمان ہیں۔وہ خود کو ہندوستانی اجداد کی جگہ مغلوں سے جوڑ کر اشعار لکھتے تھے۔ مضمون نگار راحت صاحب کے خود کو مسلمان کہنے پر اس طرح تنقید کرتے ہیں کہ وہ ایک مخصوص نظریے اور مخصوص مذہب کے حق میں رہے اور اسٹیج سے کھلے عام اعلان کرتے تھے کہ میں جتنا کٹر ہندوستانی ہوں اتنا ہی کٹر مسلمان ہوں۔ 2002 میں گجرات کے گودھرا حادثہ پر ان کا یہ قطعہ بہت مشہور ہوا تھا:
جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر
وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے
اپنے مردے بھی جو جلاتے نہیں
زندہ لوگوں کو کیوں جلائیں گے
لیکن آر ایس ایس کی نگاہ میں یہ اشعار “اپنے مذہبی بھائیوں کا کھل کر بچا کرنا” تھا۔
یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے راحت صاحب کے انتقال پر ٹوئٹر ٹرینڈ چلا کر خوشیوں کا اظہار کیا اور ان کے مشہور اشعار میں تحریف کرکے نہایت بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔
اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں کہ ٹھیک دس مہینے کے وقفے پر وحیدالدین خان صاحب کا انتقال ہوا جن کی شہرت ایک “عالم دین” کی تھی۔جو ظاہرا ایک باشرع اور باعمل مسلمان نظر آتے تھے۔جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر آئی تو آر ایس ایس کے کارگزار امیر “دتا ترے ہسابولے” اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
“پدم بِبھوشن مولانا وحیدالدین خان کے انتقال سے ملک نے اسلام کے ایک سچے عالم کو کھودیا ہے۔جو ہمیشہ مذہب کی صحیح تعبیر وتشریح کے ذریعے خیر سگالی اور اتحاد کا درس دیتے رہے۔آر ایس ایس ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ ان کی روح کو سکون ملے۔”
اس سے قبل خان صاحب کی “خدمات” سے خوش ہوکر بی جے پی حکومت نے سن 2000 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے خطاب “پدم بھوشن” سے نوازا تھا جبکہ کچھ وقت پہلے ہی مودی حکومت نے انہیں ملک کے دوسرے بڑے اوارڈ “پدم بِبھوشن” سے نوازا۔اگر عمر وفا کرتی تو ان کی ‘خدمات’ کے عوض سب سے بڑا شہری اوراڈ “بھارت رتن” بھی مل سکتا تھا۔
یہ بات اپنے آپ میں کس قدر حیران کن ہے کہ آر ایس ایس جیسی تنظیم ایک بے عمل دنیا دار شاعر کے انتقال پر اس کی شاعری اور نظریات پر تنقید کرتی ہے۔اس کے کارکنان شاعر کی موت پر خوشیاں مناتے ہیں لیکن اسی تنظیم کا سربراہ ایک “دین دار عالم” کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور تنظیم کے کارکنان بھی مولانا کی وفات پر رنجیدہ نظر آتے ہیں۔
آخر کیا بات ہے کہ آر ایس ایس کو ایک دنیا دار شاعر میں “مسلمان” نظر آتا تھا۔
جبکہ ایک “دین دار عالم” میں اسے اپنا “ترجمان” نظر آتا تھا۔
سوچئے ، خوب سوچئے!
کیوں کہ یہ کہانی ان دو کرداروں پر ختم نہیں ہوئی۔ابھی داستان جاری ہے چہرے بدلیں گے ، کردار بدلیں گے مگر نظریات یہی رہیں گے۔
غلام مصطفی نعیمی
میں نعیمی صاحب کو سلام پیش کرتا ہوں انکی بالغ نظری اور غیرجانبدرانہ بہت اچھا مقالہ جس میں چشم کشا نقاط بیان ہوئے دعا ہے دنیا کے ہر حصے میں ابن آدم اور بنت حوا کی زندگی آسان ہو ان کو رنگ و نسل اور مذھب کی بنیاد پر نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑے ،آمین !
٭٭٭











