اپنے گزشتہ کالم عوام کا سونامی، خدا خیر کرے میں ہم نے جن خدشات کا ذکر کیا تھا وہ سچ ہی ثابت ہوئے، جناح ایونیو پر پی ٹی آئی کے پُر امن قافلے پر جس طرح ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا جس طرح لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں اس کی مثال جلیانوالہ باغ واقعے میں جنرل ڈائر کے حکم پر تحریک آزادی کے متوالوں پر کی جانیوالی فائرنگ اور قتل عام سے ہر گز کم نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ جلیانوالہ باغ میں تحریک آزادی کے متوالوں پر گورا برطانوی فوج کا مقامی سربراہ تھا جبکہ جناح ایونیو پر حقیقی آزادی کے پروانوں پر اپنے ہی ہم وطنوں پر گولیاں برسانے کے اقدام کی قیادت ملک کا وزیر داخلہ اور فوج کا پٹھو محسن نقوی کررہا تھا۔ قطع نظر اس کے کہ پٹھو حکومت کے اس ارتکاب پر کتنی شہادتیں ہوئیں کتنے لوگ زخمی ہوئے یہ سوچنا ہوگا کہ قتل و غارت کا یہ اقدام دینی اور انسانی حوالے سے کتنا قریہہ اور منکرانہ فعل تھا جس کے نتیجے میں اگر ایک فرد کی شہادت بھی ہوئی تو یہ دین مبین کے مطابق سارے عالم کی موت کے مترادف ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مارنے والے بھی کلمہ گو تھے اور مارے جانے والے بھی اللہ کے نام لیوا تھے جو اپنے حق کیلئے نہتے تھے اور حقیقی آزادی کے حصول و اپنے قائد کی رہائی کیلئے احتجاج کر رہے تھے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اس بدترین سانحہ پر جہاں دنیا بھر کا میڈیا حقائق سے آگاہی دے رہا تھا، وطن عزیز کا کنٹرولڈ میڈیا حقیقت کے برعکس لنگڑی لولی حکومت اور جابر مقتدرہ کا دیا ہو انکتہ نظر بیان کر رہا تھا۔ مطیع اللہ جان جیسے چند صحافیوں نے شہادتوں اور مضروبیت کے حقائق جاننے چاہے تو انہیں نہ صرف اٹھا لیا گیا بلکہ آئس کی برآمدگی جیسے بھونڈے الزام میں پابند سلاسل بھی کر دیا گیا۔ ایک جانب تو یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو دوسری جانب فارم 47 کی چوری شدہ مینڈیٹ کی حکومت کا وزیرا طلاعات اپنے کریہہ الصورت انداز میں شہداء اور زخمیوں کی تعداد اور پی ٹی آئی کے قائدین اور مظاہرین کے حوالے سے تمسخرانہ دعوئوں اور منکرات میں مصروف تھا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں، مظاہرے اور بے بنیاد ہنگامہ آرائی کے الزامات میں ہماری ان سطور کے تحریر کئے جانے تک قائد عمران خان کیخلاف نہ صرف 12 سے زائد ایف آئی آرز درج کی جا چکی تھیں بلکہ ملاقاتوں پر پابندی بھی عائد تھی۔ امریکہ میں روپوش پی ٹی آئی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تو اس شبہ کا انتباہ بھی کر دیا تھا کہ بانی چیئرمین اڈیالہ جیل میں نہیں ہے انہیں فوج کی تحویل میں دیدیا گیا ہے تاہم دو دسمبر کو بانیٔ چیئرمین کی اڈیالہ جیل میں اپنے ساتھیوں سے ملاقات نے اس شبہ کو زائل کر دیا بلکہ ان کے دھرنے اور پی ٹی آئی کے مشن اور الٹی سیدھی افواہوں پر واضح مؤقف سامنے آگیا ہے۔ قائد عمران خان سے عوام کی محبت اور غیر متزلزل سپورٹ بھی واضح ہو گئی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے قائد عمران خان اور پی ٹی آئی کیخلاف جبر، قید و بند اور فسطائیت کے ارادوں اور عمل کا سلسلہ تو جاری ہے، البتہ حالیہ احتجاج اور دھرنے کے نتیجے میں جہاں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کراچی سے کشمیر و گلگت بلتستان تک عوام کی محبوبیت عمران کیلئے ہے بلکہ بیرون ملک بھی پاکستانیوں کا لیڈر صرف عمران خان ہے وہیں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی کی اشرافیہ میں اغراض کی دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ دھرنے میں کراچی، سندھ، بلوچستان، کشمیر، جی بی سے عوام کیساتھ قائدین اور سب سے بڑھ کر کے پی سے تمام اراکین، قائدین نے سب سے بڑھ کر شرکت کی لیکن پنجاب سے ماسوائے چند شہروں کے پنجاب کے دل لاہور سے کوئی واضح نمائندگی نظر نہیں آئی، ہو سکتا ہے اس کی وجہ سخت بندش، مواصلات کی عدم دستیابی اور رکاوٹیں رہی ہوں لیکن رہنمائوں کی عدم موجودگی بڑا سوال ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان سینیٹ و قومی اسمبلی پارلیمنٹ ہائوس میں ہوتے ہوئے بھی احتجاج کا حصہ نہیں تھے، حد تو یہ ہے کہ بہت سے مرکزی قائدین بھی جلوس میں نظر نہیں آئے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پی ٹی آئی کا یہ احتجاج یقیناً تاریخ بتایا جا رہا ہے لیکن ریاستی دہشتگردی اور قتال کے نتیجے میں شہداء و زخمیوں میں عام لوگ ہی کیوں، کوئی رہنما، ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر یا عہدیدار شامل کیوں نہیں؟ کیا علیمہ باجی کی اس منطق پر یقین کر لیا جائے کہ عمران خان کے نام پر لیڈری کرنیوالے، منتخب ہونے والے نہیں چاہتے کہ عمران رہا ہو، یہ سب کمپرومائزڈ ہیں۔ ایک بزرگ صحافی اور خان کے حقیقی دوست کے مطابق پی ٹی آئی میں پڑنے والی دراڑیں ملک اور عوام کیلئے نقصان دہ ہیں اور اس کا فوری مداوا لازمی ہے۔ ہماری عرض ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان ہے اور ملک و پاکستانیوں کا مداوا عمران کے سواء کوئی نہیں یہی حقیقت ہے کہ صفوں میں کوئی دراڑ نہ پڑے اور حقیقی آزادی کا حصول ممکن ہو۔
٭٭٭٭٭