تل ابیب (پاکستان نیوز) اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ نے دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا کر دیا ہے ، شدید عالمی دبائو اور مسلم اُمہ کی وارننگ پر اسرائیل دفاعی پوزیشن میں چلا گیا ہے ، صدر بائیڈن نے دورہ اسرائیل کے دوران وزیراعظم نیتن یاہو کو عرب ممالک کی پوزیشن سے آگاہ کرتے ہوئے غزہ کیخلاف کسی بھی قسم کی زمینی کارروائی سے منع کر دیا ہے ، مسلم اُمہ فلسطینیوں کے دفاع میں اسرائیل کیخلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے ، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکہ کے وزیر خارجہ کو ملاقات کے لیے رات بھر انتظار کروا کر اسرائیل کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کے لیے سخت پیغام دیا ہے ، جبکہ ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تو وہ پیشگی حملہ کر سکتا ہے جس کے لیے روس نے جدید اسلحہ شام منتقل کر دیا ہے ، غزہ کے ہسپتال پر حملے کے بعد دنیا کے سخت دباواور رد عمل کی وجہ سے اسرائیل دفاعی پوزیشن پر چلا گیا ہے،اس حملے نے خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد پر ذمہ داری ڈال دی ہے۔حملے کے شواہد اور دھماکے کی شدت اسرائیلی موقف پر سوالات اٹھا رہی ہے۔ خود اسرائیل کے حامی ممالک بھی تحقیقات اور احتساب کا مطالبہ کررہے ہیں۔اسرائیلی حکومت سے سوال کیا جارہا ہے کہ وہ ماضی سے کوئی ایک واقعہ تو سامنے لائے۔ جس میں غزہ سے داغے گئے راکٹ نے کسی بلڈنگ کو اتنی شدت سے نشانہ بنایا ہو اور اس میں تقریباً500 لوگ مارے گئے ہوں۔اس واقعے کی کوریج کرنے والے بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں نے بھی اسرائیلی دعوے پر سوالات اٹھائے ہیں،صرف میڈیا نے ہی نشاندہی نہیں کی بلکہ خود اسرائیلی موقف میں بھی تضاد نظر آیا۔مصر نے غزہ میں امداد کے 20 ٹرکوں کو داخل کرنے کے لیے رفح کراسنگ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ امداد حکام امریکہ کی نگرانی میں بین الاقوامی انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ تعاون سے فراہم کریں گے۔ دوسری جانب نیٹو میں امریکہ کے ایک سابق سفیر نے بتایا کہ امریکہ ممکنہ طور پر ایران کو اسرائیل اور حماس کے تنازع سے دور رکھنے کے لیے پر بلاوسطہ بات چیت کر رہا ہے، امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد کے اس مسودہ کو ‘ویٹو’ (مسترد) کر دیا ہے جس میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔برازیل کی طرف سے پیش کردہ متن میں ‘حماس کے گھناؤنے دہشت گرد حملوں’ کی بھی مذمت کی گئی اور کہا گیا ہے کہ تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے اور تمام فریقین بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کریں۔ صدر جو بائیڈن کے آج اسرائیل کے دورے کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ امریکیوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کے لیے ‘سفارت کاری کو بروئے کار لانا ہوگا۔یاد رہے کہ امریکہ اسرائیل فلسطین تنازع میں درجنوں بار اپنے ‘ویٹو’ کا استعمال کر چکا ہے۔ امریکی سفیر نے یہ بھی کہا کہ ملک کو مایوسی ہوئی ہے کہ قرارداد میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔امریکہ، اسرائیل اور دیگر بہت سے مغربی ممالک کے سامنے اس وقت سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ موجودہ بحران ایک ایسی علاقائی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے جو اسرائیل کی سرحدوں سے باہر نکل کر خطے کے دیگر علاقوں تک نہ پھیل جائے۔ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اگر غزہ میں فلسطینیوں کو مارنے کا سلسلہ نہ رْکا تو وہ چپ نہیں بیٹھے گا۔ اب عرب میڈیا میں یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ایران کی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروہ عراق اور شام کے راستے سے ہوتے ہوئے جنوبی لبنان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ان جنگجوؤں میں سے کچھ نے باغیوں کے خلاف شامی فوج کی حمایت میں حالیہ جنگی تجربہ بھی کیا ہے۔ خطے میں موجود ایران کی حمایت یافتہ مختلف گروہوں میں سب سے زیادہ طاقتور لبنان میں موجود حزب اللہ ہے۔حزب اللہ نے 2006 میں اسرائیل کے ساتھ ایک جنگ لڑی تھی۔ اس کے بعد سے اس نے راکٹوں اور میزائلوں کی اپنی سپلائی بحال کی ہے اور اس کے پاس موجود راکٹوں اور میزائلوں کی تعداد اب تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ان میں کچھ میزائل اتنا طویل مار کرنے والے اور ہدف کو درستگی سے نشانہ بنانے والے ہیں کہ وہ بیت المقدس اور تل ابیب میں چھوٹی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں بشرطیکہ یہ میزائل اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم (آئرن ڈوم) کو چکما دینے میں کامیاب ہو پائیں تو۔حزب اللہ اور ایران کو اسرائیل کے خلاف حماس کی جنگ میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے امریکہ نے دو طیارہ بردارجنگی بحری بیڑوں کو مشرقی بحیرہ روم میں ساحل پر تعینات کر دیا ہے، غزہ میں منگل کے روز ہونے والے ہسپتال کے شدید دھماکے سے پہلے ہی خطے میں کشیدگی عروج پر تھی ،اس تناظر میں اگر اسرائیلی افواج غزہ میں بڑے پیمانے پر کارروائی کرتی ہیں تو خدشہ ہے کہ یہ حزب اللہ کے لیے لبنان سے ایک نیا محاذ کھولنے کا محرک بن سکتا ہے اور پھر جنگ کے ان شعلوں کو بجھانا آسان نہیں ہو گا۔