21 اکتوبر 2024ء کو پاکستان کی سیاسی، آئینی و جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن قرار دینا غلط ہر گز نہیں ہو سکتا،گزشتہ ایک ماہ سے بھی زیادہ آئینی ترمیم کا تماشہ بالآخر 21 تاریخ کو عدلیہ کے پَر کاٹنے کی منظوری پر اختتام پذیر ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان جو لپاڈگی ہوتی رہی، سیاست کی گیند ادھر سے اُدھر لڑھکتی رہی، اس کی تفصیل قوم کے بچے بچے کو معلوم ہے، مولانا کا چومکھی کردار اور سیاسی ایرینا میں شاطرانہ کھیل کے سبب مرکزی مقام آخر وقت تک چیستاں بنا رہا، صورتحال پنگ پانگ کی گیند کی طرح سے تبدیل ہوتی رہی تاہم آخر وقت تک مبہم ہی رہی، پارلیمان کے اجلاس کی تاخیر و تاویل مزید اُلجھن و نا اُمیدی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ایسے میں پردے کے پیچھے ڈوریوں کے کرداروں نے اپنا کام دکھایا اور دبائو، لالچ، سودے بازی و خوف اور دھمکی کا بازار گرم رہا۔ اغوائ،گمشدگی،اربوں ڈالر و دیگر تصریحات کے ذریعے ترمیم منظور کرا دی گئی۔ اس سارے کھیل میں جہاں مولانا نے اپنی سیاسی حیثیت و اہمیت کو منوایا وہیں ملک و عوام کی سب سے زیادہ مقبول جماعت کو آخر تک اُلجھائے رکھ کر مقتدرین کا کام آسان کروا دیا۔ ہمیں ایک مشہور شعر یاد آرہا ہے، دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی”، کپتان کیساتھ ایک طرف تو مولانا اپنا کھیل کھیلتے رہے تو دوسری جانب پردہ نشینوں کے دبائو اورمخصوص نشستوں کی آڑ میں آزاد، درحقیقت پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمان نے حلف و عہد کے برعکس غداری کا اقدام کیا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں زور، زبردستی اور لالچ کے بل پر جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ درست ہی ثابت ہوئے۔
ترمیم کی منظوری تو ہو گئی، درحقیقت آئین پاکستان پر نہ صرف کلہاڑا چل گیا ہے بلکہ عدالتی نظام کو پارلیمان کے زیر نگیں کر کے انصاف کو بھی مجبوری و مقہوری کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ آئینی بینچ کی تشکیل سے سپریم کورٹ کو بے اثر کر دینے، ججز کی نامزدگی کو پارلیمان کے تابع کرنا اور پسند نا پسند کی بناء پر فیصلوں کی خواہش نہ عدل و انصاف کے مطابق ہے اور نہ ہی عوام کے حصول انصاف کے مفاد میں۔ یوں تو پاکستانی عدلیہ کا کردار کبھی بھی قابل ستائش نہیں رہا اور تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ ہر آمرانہ دور میں عدلیہ نے شجر سایہ دار اور جی حضور جو آپ کا حکم کا کردار ادا کیا ہے لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد تو اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقتدرہ کیساتھ اب پارلیمان کی محکومی بھی عدلیہ کا نصیب ہوگی، سوال یہ ہے کہ کیا بار اور بینچ کیلئے یہ قبول ہوگا کہ آئین کی رُو سے آزاد عدلیہ گوالمنڈی کے آئین و قانون سے لا علم پارلیمنٹیرین کی ماتحتی قبول کرے، مزید یہ کہ کیا اس ترمیم کے تناظرمیں بنے قانون کے مطابق سینئر ترین جج کی جگہ پارلیمانی کمیٹی کے جونیئر جج کے تعین سے امور عدالت و انصاف صحیح طور سے چل سکیں گے، ہمارے خیال میں ایسا ہر گز مناسب نہیں ہوگا البتہ کارروائیاں اور فیصلے حسب الحکم و مفاد کی بناء پر ہونگے، ترمیم کے منظور ہوتے ہی وکلاء تنظیموں اور برادری ہی نہیں،سیاسی،ہیومن رائٹس اور جمہوری جماعتوں، تنظیموں حتیٰ کہ ابلاغ و عوامی حلقے بھی پُر احتجاج ہیں۔
بعض حلقوں اور تبصرہ نگاروں کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کا یہ شوشا اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے تنازعہ اور اس کے سبب اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کا معاملہ ہے اور اس کے سبب مقتدرین کے ایماء پر عدالتی نظام کو مطیع و تابع بنانے کا اقدام ہے تاکہ مقتدروں کے عمران خان اور پی ٹی آئی کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کے ایجنڈے پر عمل کیا جا سکے،مبینہ طور پر اس مقصد پر پی ٹی آئی میں انتشار، تقسیم کے مظاہر بھی سامنے آئے ہیں خصوصاً ترمیم کی منظوری کیلئے پی ٹی آئی اور بعض دیگر جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کی مختلف طریقوں سے وفاداریاں خرید کر جہاں ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا گیا وہیں عمران پر قید و بند کی سختیاں مزید بڑھا دی گئیں، اسے روشنی سے محروم کر دیا گیا ہے،ملاقاتوں پر 18 اکتوبر تک پابندیوں کو غیر معینہ مدت تک بڑھا دیا گیا ہے، دو بہنیں اور بھانجہ زیر حراست ہیں جبکہ اس کے ارد گرد مزید سیکیورٹی بڑھانے کیساتھ رابطہ کی ہر سہولت ناممکن بنا دی گئی ہے۔ کپتان کی بہن ڈاکٹر نورین صبح سے شام تک بھائی سے ملنے کیلئے کھڑی رہی لیکن اُسے ملنے نہیں دیا گیا، دکھ یہ ہے کہ ڈاکٹر نورین کی مدد کیلئے پی ٹی آئی کا کوئی عہدیدار ،وکیل یا نمائندہ تک نہیں آیا۔سابق وزیراعظم اور پاکستانی عوام کے سب سے زیادہ محبوب لیڈر کے ساتھ ظلم و ستم کی یہ انتہاء کسی طور بھی نہ انسانیت کی عکاس ہے، نہ کسی مذہب و تہذیب کے مطابق ہے۔
ان تمام مظالم، مصائب و مشکلات کے باوجود عمران اور اس کے وفادار ساتھی عوام کی حمایت کیساتھ ظلم کیخلاف چٹان بنے ہوئے ہیں البتہ مذکورہ ترمیم کے ناطے سے عمران اور پارٹی کو ان بے غیرتوں اور غداروں کا پتہ چل گیا ہے جو اپنی غرض، مفاد کیلئے عمران کی مقبولیت و عوامی حمایت اور ایجنڈے کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھے اور آج نہ صرف وطن عزیز بلکہ دنیا بھر میں پاکستانیوں کی نفرت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا!، ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم، رزِم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن)” عمران خان اقبال کا وہی مرد مومن ہے جو پاکستان میں موجود باطل کی قوتوں اور ان کے آلۂ کاروں و سہولت کاروں کیلئے فولاد کی طرح مقابل کھڑا ہے، جتنی بھی ترامیم ہوں، تعزیرات ہوں یا مشکلات راہ میں حائل ہوں فتح عمران اور عوام کو ہی ملنی ہے اور ظلم و استبداد کے محرکین کیلئے جلد انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھا جانا ہے۔ کتاب مبین کا ارشاد ہے، قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ فیصلے یقیناً ان کے حق میں ہیں جو اس ارشاد پر چلنے والے ہیں۔
٭٭٭٭