واشنگٹن(پاکستان نیوز) واشنگٹن پوسٹ کے صحافی کریگ وہٹ لاک کی نئی کتاب سامنے آگئی، انہوں نے کہا اپریل 2002 میں سابق امریکی صدر بش نے خبردار کیا تھا کہ جنگجو افغانستان میں حاصل امن اور ترقی والی کامیابی کو ناکام بنا رہے ہیں۔ اپنی کتاب ” دی افغانستان پیپرز: ایک سیکرٹ ہسٹری آف وار” میں انہوں نے لکھا کہ دستاویز سے یہ بات سامنے آگئی ہے کہ کس طرح امریکی رہنما، سفارتکار اور دیگر عہدیدار عوامی سطح پر افغانستان میں کامیابی کے گن گاتے تھے اور اندرونی سطح پر جانتے تھے کہ افغانستان میں ہماری کوئی واضح حکمت عملی ہے نہ کوئی مقصد۔ ہم شکست کھا رہے ہیں۔ دستاویز کے مطابق امریکی عہدیدار جانتے تھے کہ وہ جنگ جیتنے کی قابلیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا جنگ کے آغاز میں ہر کوئی دشمن کو جانتا تھا اور وہ القاعدہ کے ارکان تھے۔ صرف 6 ماہ کی مدت میں 2002 کے اوائل میں بھی القاعدہ کی قیادت کا بڑا حصہ مارا گیا، گرفتار کرلیا گیا یا افغانستان سے فرار ہوگیا تھا۔ اس موقع پر آکر دشمن غیر واضح اور مبھم ہوگیا۔ امریکی صدر بش، نائب صدر ڈک چینی نے القاعدہ ، طالبان اور دیگر گروپوں کو ایک دوسر ے کے ساتھ جوڑ دیا اور ان سب کو ”برے لوگ” کہنا شروع کردیا۔ رمز فیلڈ نے اپنے انٹیلی جنس چیفس کو ایک میمو میں لکھا کہ مجھے افغانستان میں نظر نہیں آتا کہ ”برے لوگ” کون ہیں۔ امریکی صحافی کی کتاب میں شامل ایک انٹرویو میں فارن سروس آفیسر ٹاڈ گرین نے کہا ہے کہ امریکہ نے کارروائیاں شروع کرکے طالبان کی شورش کا آغاز کیا ہے۔ افغانستان میں صدیوں سے غیر ملکیوں نے حملے کئے تھے۔ وہاں پر ایک دوسرے سے لڑنے والے کمانڈرز موجود تھے۔ 2002 میں طالبان کو شکست دے دی گئی تھی، یہی وقت تھا کہ کسی مفاہمت کا دروازہ کھولا جاتا اور جنگ کو سیاسی مفاہمت کے ذریعہ ختم کردیا جاتا۔ تاہم اس وقت ہم نے ” برے لوگوں” کی فہرست کو طوالت دینا شروع کردیا۔