کریم لوگ!!!

0
132
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

اقتدار، بادشاہی، حکومت، یہ دائمی نہیں ہے بلکہ یہ اعزازات حاصل کرنے کے بعد آپ کا رویہ آپ کا برتائو معنی رکھتا ہے۔کہتے ہیں ایک درویش کے سامنے گھوڑے کے اوپر بیٹھا ہوا شہزادہ کہہ رہا تھا۔باباجی راستہ چھوڑ دو مجھے گزرنا ہے۔باباجی نے فرمایا بیٹا تم گھوڑے پر ہو میرے دائیں بائیں سے گذار لو مجھے کیوں ہٹاتے ہو۔شہزادہ طیش میں آگیا۔میں آپ کا بیٹا نہیں ہوں۔میں شاہ زادہ ہوں باباجی نے فرمایا یہ تعارف تو باپ کا ہے کہ وہ شاہ ہے اور تم اس کے بیٹے ہو۔اور سنو یہ جو تم نے شاہی لباس پہنا ہے۔یہ رات کو سوتے وقت تم اتار کر کھونٹے پر لٹکا دیتے ہو۔اور یہ جو اونچے ہو۔یہ گھوڑے کی پشت کی اونچائی ہے سو شاہزادہ ہونا تیرے باپ کی تعریف ہے لباس فاخرہ ہونا کپڑوں کا تعارف ہے۔اونچائی گھوڑے کے اونچے ہونے کی تعریف ہے تم بتائو تمہاری تعریف کیا ہے ۔لڑکا سمجھ دار تھا گھوڑے سے اُترا اور درویش کے پائوں پکڑے لیے اور کہا بابا جی بھلا ہو آپ کا آپ نے مجھے اوقات یاد دلا دی ،اب میں آپ سے اس وقت ملاقات کروں گا جب میرا کوئی تعارف ہوگا، آج کے اس دورمیں ہم بھی اسی مرض کا شکار ہیں میں فلاں جاگیردار کا بیٹا ہوں۔میں فلاں وزیر کا بیٹا ہوں، تم جانتے نہیں میرا باپ آئی جی ہے تم جانتے میں فلاں پیر کا بیٹا ہوں۔نہ جانے کن کن حکومت، اقتدار اور بڑے لوگوں کا نام لے لے کر ہم اپنا تعارف کراتے ہیں۔سرکار دو عالمۖ نے کریم لوگوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جو ہر حال میں اسی طرح تھے جس طرح عام آدمتی ہوتا ہے۔وائل بن حجر حضر موت یمن کا شہزادہ تھا۔اسلام قبول کرلیا سرکار دو عالم نے عزت دی پیار دیا اور کچھ زمین عطا کی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے فرمایا جائو وائل کو زمین دکھا دو۔اور وثیقہ بھی لکھ دو۔چونکہ آپ کا تب بھی تھے سرکار کی بارگاہ سے باہر نکلے اتفاق سے حضرت امیر معاویہ کا جوتا چلنے کے قابل نہیں تھا۔آپ ننگے پائوں ہی چل پڑے ،سخت دھوپ اور گرمی تھی آپ نے فرمایا شہزادے مجھے اپنی اونٹنی کے پیچھے بٹھالو۔اس نے کہا میں ان شہزادوں میں سے نہیں جو تمہیں پیچھے بٹھالوں، حضرت امیر معاویہ نے کہا زمین گرم ہے تم سوار ہو مجھے اپنے جوتے ہی دے دو۔وائل نے کہا اے امیر معاویہ میں نجل کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یمن کے بادشاہ یہ نہ کہیں امیر معاویہ نے ایک شہزادے کے جوتے پہنے ہیں۔صرف اتنا کرسکتا ہوں۔کہ تم میری اونٹنی کے سایہ میں چلتے رہو۔وائیل آخری عمر میں کوفہ میں منتقل ہوگئے۔قدرت الٰہی کا کرشمہ دیکھو حضرت امام حسن علیہ السلام نے خلافت امیر معاویہ رضی اللہ کو عطا کردی اور یوں حضرت امیر معاویہ پوری ملت اسلامیہ کے خلیفہ بن گئے آپ کے دربار میں ایک دن وائیل بن حجر تشریف لائے۔حضرت امیر معاویہ نے پہچان لیا ان کو پرانا واقعہ کبھی یاد آگیا مگر اس کے برعکس کھڑے ہوگئے اور اپنی برابر کی کرسی پر بٹھا دیا۔کریم لوگ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here