استقبال ربیع الائول!!!

0
184
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

جس وقت یہ تحریر آپ کی نظر سے گزر رہی ہوگی،ربیع الاول شریف شروع ہوچکا ہوگا۔سرکار دو عالمۖ کی محافل میلاد جاری وساری ہوں گی۔نعت خوانی کا سلسلہ بھی پوری آب وتاب کے ساتھ چل رہا ہوگا۔یقیناً یہ سارے کام بے حد قیمتی ہیں۔اجرو ثواب کے حامل ہیں۔انشاء اللہ بھرپو اجرو ثواب ملے گا۔قبر میں راحت ہوگی۔اور انشاء اللہ فرحت وشادمانی کے ساتھ جنت میں داخلہ ہوگا۔دو پہلو بڑے اہم ہیں ایک میلاد ہے دوسرا سیرت ہے اسوہ حسنہ ہے جس کا حکم ہمیں دیا گیا۔الحمد للہ میلاد شریف کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں۔لمبے لمبے جلسے محافل نعت خوانی کھلا لنگر غرضیکہ کسی بھی پہلو سے دیکھیں اللہ کے فضل وکرم سے طبیعت خوش ہوجاتی ہے اور ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دوسرا حصہ سیرت کا ہے جس سے ہمارا ہاتھ بہت تنگ ہے اور یہی اہم حصہ ہے۔لقدکان حکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ سیرت رسول اکرمۖ پر عمل کیا جائے۔سرکار کے زمانہ میں ایک نوجوان نے دو نمازوں کے وعدہ پر اسلام قبول کرلیا۔مگر آہستہ آہستہ پوری نمازیں پڑھنے لگا۔مسجد میں دل لگ گیا ایک دن سرکار نے پوچھا کیا ہوا تم نے تو دو نمازیں پر اسلام قبول کیا تھا عرض کی یارسول اللہ آپ کی محبت مسجد سے جانے نہیں دیتی۔ہم اور ہماری محبت عجیب ہے۔محبت میں خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں جب عمل کی باری آتی ہے ۔لمبے لمبے جلسے رات دو تین بچے تک جاری رہتے ہیں۔جب صبح کی نماز کا وقت آتا ہے۔تھکاوٹ اور نیند رکاوٹ بن جاتی ہے۔معاملات کا یہ عالم ہے ایک صاحب نے کسی سے ادھار لیا۔مگر وعدہ کے مطابق ادا نہ کیا قرض دینے والا اور لینے والا دونوں میرے جاننے والے تھے۔مجھے بطور دوست کے درمیان میں ڈالا۔میں نے کہا کب قرض لوٹائو گے کہنے لگا تین مہینے کے بعد میں نے کہا تین مہینے میں تمہیں دیتا ہوں۔چھ مہینے کے بعد لوٹا دنیا چھ مہینے کے بعد قرض خواہ اور میں اس کے گھر گئے میلاد پاک کے جلسے لنگر سب کچھ محبت سے کرتا تھا مگر جب میں نے کہا تم زبان کی تھی چھ مہینے گزر گئے ہیں اب قرض لوٹائو کہنے لگا میرے پاس نہیں ہے۔میں نے کہا تم نے مجھے زبان دی تھی چھ مہینے بعد لوٹا دوں گا اب لوٹائو کہنے لگا جس زبان سے وعدہ کیا تھا اسی زبان سے انکار کر رہا ہوں۔میں نے کسی کی زبان استعمال نہیں کی۔سر پکڑ کر بیٹھ گیا عجیب منطق تھی اسی زبان سے انکار کر رہا ہوں۔ایک مولوی صاحب گائوں تشریف لائے۔میں بھی گائوں میں تھا۔نماز کے لئے مسجد تشریف نہیں لائے میں نے پوچھا کیا ہوا۔فرمانے لگے میلاد پڑھ پڑھ کر تھک گیا تھا۔آرام کرنے آیا ہوں مسجد سے نمازوں کی چھٹی لی ہے۔عجیب منطق ہے ایک واعظ مہمان ہوا۔میرے بچے نمازیں پڑھتے رہے۔انہوں نے پوچھا انکل آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے فرمانے لگے نمازیں پڑھا پڑھا کر تھک گیا تھا۔امریکہ آرام کرنے آیا ہوں میرے بچو عزیزومحبت کا تقاضہ سیرت رسول پر عمل ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here