عمران خان نے25مئی کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان آخرکار کر ہی دیا۔حکومت اور اس کے اتحادی بھی ڈٹ گئے ہیں کہ اکتوبر2023ء سے پہلے انتخابات نہیں کرواتے ہیں۔اور موجودہ حکومت آگے دو بجٹ پیش کرکے انتخابات کی طرف جائیگی۔عمران بھی ڈٹنے کا تاثیر دے رہا ہے۔لیکن تحریک انصاف کے رہنمائوں کے چہرے بتا رہے ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ناموافق حالات میں دھرنے کا اعلان ایک بڑا جوا ہوگا۔اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان نے فوج ،سول بیورو کریسی اور پولیس کو پیغام دیا ہے کہ انکی سونامی کو روکنے کی کوشش نہیں کریں۔فوج کو تو پھر بھی فقط نیوٹرل رہنے کا پیغام دیا ہے۔حالانکہ پچھلی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے اب فرما رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں اب نیوٹرل ہوجائیں لیکن پولیس اور سول افسران کو دھمکی دے رہے ہیں۔کہ اگر گڑ بڑ کی تو آیا لوگوں کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔بلکہ سزا ملے گی ،کسی چیز کی بھی زیادتی خراب ہوتی ہے ،پانی زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے لیکن اسے بھی اگر ایک حد سے زیادہ اگر کوئی استعمال کرلے تو وہ اندرونی طور پر دھوب جاتا ہے۔عمران خان کو حد سے زیادہ خود اعتماد بی انکے لئے خطرناک ثابت ہوگی۔پھر مذہب کارڈ کے بے جا استعمال بھی اب انہی کے حمایتیوں کو کھٹکھنے لگا ہے ،قرآن کی آیات سے شروع کرکے ننگے سر عورتوں کا ڈانس اب انہیں بھی محبوب لگنے لگا ہے۔اقتدار سے باہر آنے کے بعد کے مسئلے مسائل سے عمران خان کی وہ گھوڑے پر سوار شہزادے والی چمک رفتہ رفتہ کم ہونے لگی ہے۔دھڑا دھڑ جلسے جلوس کر کے لوگوں کے جوش اور جذبے کو بے جا استعمال کر بیٹھے ہیں۔اب کارکن بھی تھک گئے ہیں۔موسم بھی بدلنا شروع ہوگیا ہے۔اور درجہ حرارت جیسے بڑھ رہا ہے لوگوں کے لئے ایک آدھ دن کے بعد اسلام آباد کی پنجاب سڑکوں پر چلنا یا رکنا مشکل ہوجائیگا۔پہلے تو کارکنوں کو یہ جھانسہ دیا گیا تھا کہ اگر آپ لوگ سڑکوں پر آگئے تو اسٹیبلشمنٹ گھبرا کر پی ٹی آئی کی حکومت کو بحال کردیگی تو کارکن بھی یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ہمارے سڑکوں پر آنے سے اگر خان دوبارہ اقتدار میں آجائیگا۔تو سودا مہنگا نہیں ہے لیکن اب تو اسٹیبلشمنٹ نے انتظام رانا ثناء اللہ کے حوالے کردیا ہے۔اور ملک گیر گرفتاریاں شروع ہوگئی ہیں گھروں پر چھاپے لگنے سے تحریک کے رہنمائوں کی چیخیں نکل گئیں ہیں۔جب محسن بیگ کے گھر میں گھس کر اس کے بیٹے کی پٹائی کروائی گئی تھی تو ٹھیک تھا رانا ثناء اللہ پر منشیات کا بڑا مدعا ڈالا گیا تھا تو اس وقت سوچا نہیں تھا کہ جو آپ لوگ بو رہے تھے وہ ایک دن کاٹنا پڑیگا وہی ایف آئی اے جو کل تک ن لیگ کے رہنمائوں پر مظالم ڈھا رہی تھی آج آپ زیرعتاب آگئے ہیں۔تو چیخیں نہیں پچھلے دھرنے میں تو علامہ طاہر القادری کے مریدین تھے جنہوں نے گھٹنے باندھ کر دھرنا دیا تھا کہیں وہاں سے میدان نہیں چھوڑ کر گئے یوتھیئے تو جب تک گانا بجانا اور ڈھول ڈھیا ہوتا وہ دھرنے میں رہتے ہیں پھر وہ جا بجا پچھلے دھرنوں میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی ہوئی تھی جسکو مولوی صاحبان نے روکے رکھا تھا اب نہ تو قادری صاحب کے کارکن ہیں نہ ہی خاص ایجنسیوں کے لفافے ملتے ہیں،کارکنوں نے قانون ہاتھ میں لیا تو رانا ثناء اللہ تو انتظار میں جتنی انکے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، ان سے کوئی رعایت کی توقع نہ رکھیئے گا،خان کے اردگرد جو رہنما ہیںجنہیں سے سوائے شیخ رشید کے اور کسی کو جیل کا تجربہ نہیں اگر جن رشتہ داروں کو عمران نے دوراقتدار میں تنگ کیا تھا وہ فواد چودھری کی کافی عزت افزائی کرینگے۔شیخ رشید بھی اب بوڑھا ہوگیا ہے جیل جھیلنا آسمان نہیں، عمر رسیدہ کیلئے اسلئے ان سے کوئی لمبی چوڑی قربانی کی توقعہ نہ کرے، تحریک تو بہتر ہوگی۔جیلیں تو جس طرح بھٹو کے جیالوں نے جھیلیں ہیں انکا جوڑ کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔یہ حقیقت سماجی تاریخ میں رقم ہے۔
٭٭٭