فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! عقیدہ ختم نبوت اہل اسلام کے ایمان کی جان ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰۖ آخری نبی ہیں۔ آپۖ کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ کسی شخص پر کسی معنی میں بھی نبی ہونے کا اطلاق کرنا نبی پاکۖ کی ختم نبوت پر ڈاکہ ہے۔ یہ کام کافر کے سوا کوئی شخص نہیں کرسکتا۔ حضرت جابرین عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے ارشاد فرمایا:” میں آخری نبی ہوں فخریہ نہیں کہہ رہا”(مشکوٰة شریف) مزید فرمایا: میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے”(مشکوٰة وترمذی شریف) اس حدیث مبارکہ کے ساتھ ختم نبوت کا مسئلہ ثابت ہوا۔ اور مزید غیب کی تین خبریں ملتی ہیں۔”نمبر1۔میرے بعد جھوٹے مدعین نبوت پیدا ہوں گے۔نمبر2۔وہ جھوٹے میرا امتی ہونے کا دعویٰ بھی کریں گے۔نمبر3۔ان میں سے ہر ایک کا گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے۔” لہذا کسی کے دجال وکذاب ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ دعویٰ نبوت کرے۔ اس لئے اس سے دلیل مانگنا اور بحث ومباحثہ کرنا فضول ہے۔ کیونکہ دعویٰ نبوت کرکے وہ دجال وکذاب تو ہوچکا ۔ لفظ”خاتم”کوتا کے فتحہ(خاتم) سے پڑھنا اور تاء کے کسرہ(خاتم)سے پڑھنا دونوں طرح ثابت ہے۔ کسرہ سے پڑھیں تو اسم فاعل ہوگا(ختم کرنے والا) اور تاء کے فتحہ سے پڑھیں تو اسم آلہ ہوگا(جس سے ختم کیا جائے، ختم کرنے کا آلہ) یعنی انگوٹھی اور مہر۔ دونوں صورتوں میں ختم نبوت کا مفہوم بڑی وضاحت سے اس لفظ میں موجود ہے۔ زیادہ معروف روایت چونکہ تاء کے فتحہ کی ہے۔ لہذا میں تھوڑی سے بات کرتے ہیں۔ جب کوئی چیز بند کرکے اوپر مہر لگائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کے اندر سے کوئی شے باہر نہ آئے اور باہر سے کوئی چیز اندر نہ جائے۔ اگر رجسٹری شدہ ضبط کی لہر کو توڑنے والا معاشرت کے قانون کے مطابق سزا کا مستحق ہے تو پھر آقائے۔ دو جہاںۖ کی ختم نبوت کی مہر توڑنے والا تو بدرجہ اولیٰ سزا کا مسحق ٹھہرے گا۔ ایک عام کاغذ اور ایک نوٹ والا کاغذ مگران کی قدروقیمت میں فرق ہے۔ کیونکہ نوٹ کی حفاظت ہوتی ہے۔ عام کاغذ کو پھینک دیا جاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس پر حکومت کی مہر لگ چکی ہے۔ تو جس کاغذ پر حکومت کی مہر لگ جائے وہ دوسرے کاغذوں سے افضل واعلیٰ ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت کی مہر خود بنانا شروع کردے تو وہ مجرم ومستحق سزا ہوتا ہے۔ تو یقیناً ختم نبوت کی مہر توڑنے والا اور اس مجرم کو سچا ماننے والا سب مجرم ومقہورو مغضوب ہیں ایسوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا بہت ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلواة والسلام نے فرمایا کہ میری اور دوسرے نبیوں علیھم الصلواة والسلام کی مثال ایسے ہے کوئی عمارت بنائے اور وہ عمارت انتہائی خوبصورت ہو لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دے۔ اینٹ نہ لگے تو عمارت نامکمل ہے۔ لگ جائے تو اس کا حسن اپنے کمال کو پہنچ جائے۔ فرماتے ہیں دیکھنے والے اس کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں مگر خالی جگہ اس عمارت کے حسن میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ فرمایا: میں نے ہی اس جگہ کو مکمل کیا اوراس محل کی آخری اینٹ میں ہی ہوں اور خاتم النبین ہوں یہ احادیث بخاری ومسلم میں متفق علیہ ہیں۔ عقل سلیم رکھنے والا ہر شخص ختم نبوت کے لئے ان دلائل کو کافی و وافی سمجھے گا۔ جب قصر نبوت جس کی پہلی اینٹ حضرت آدم علیہ السلام اور اینٹ حضرت محمدۖ ہیں۔ اب جو کوئی اس مکمل ہوجانے والے محل برخالتو اینٹیں لگانے کی کوشش کرے گا تو دیکھنے والا سمجھ لے گا کہ یہ اینٹ معمار کی لگائی ہوئی نہیں ہے۔ کسی غدار کی لگائی ہوئی ہے۔ جو محل کو بدصورت بنانا چاہتا ہے۔ جب خدا نے قصر نبوت مکمل کردیا جس کی آخری اینٹ محمد رسول اللہۖ ہیں تو اب کوئی بھی بدنصیب جو نبوت کا خود سے دعوے دار ہے وہ گوبروپا خانے کی بدبودار اینٹ ہے اس کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے؟ کہ ایسے حسین وجمیل نبی کے بعد ایک کانے دجّال کو نبی مانا جائے۔”نہ منہ نہ متھا جن پہاڑوں لتھا۔ کہاں ابن مریم کہاں ابن کسیٹی؟ کیوں کہ ہمارا نبی علیہ السلام دل نشین ہے۔ ماہ جبین ہے بہترین ہے بالیقین ہے صادق و امین ہے۔ جبکہ مرزالعین ہے۔ بے دین ہے بدترین ہے جہنم کا شوقین ہے جس کے مرنے کی جگہ لیٹرین ہے۔ مرزا نبی نہیں، غبی ہے ظلیّ نہیں شیخ چلّی ہے۔ بروزی نہیں موذی ہے یک چشم گل ہے۔ بدشکل ہے بے عقل ہے نہ اس کی اصل ہے نہ نسل ہے دنیا کے کسی ملک میں تو ایک بتی والے ٹرک کو نہیں چلنے دیتے۔ تو ایک آنکھ والے کی نبوت کیسے چلے گی؟ بہرحال ختم نبوت کا عقیدہ سب اہل اسلام کا ایمان ہے حضور اعلیٰ حضرت حضور محدث اعظم پاکستان اور حضور شمس المشائخ نائب محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنھم نے تمام صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنھم کی طرح اس پر خوب پہرا دیا۔ اب ان تمام افکار کے امین قائد ملت اسلامیہ صاحبزادہ پیر قاضی محمد فیض رسول حیدر رضوی زید شرفہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ محدّث اعظم پاکستان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو اس کی پاسداری کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭