اسلام آباد (پاکستان نیوز)پاکستان آرمی کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے دو سابق جنرلز پر الزام ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی دولت اکھٹی کی۔یہ الزامات بین الاقوامی نجی بینک ‘کریڈٹ سوئز’ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ‘دی سوئز سیکرٹس’ کا حصہ ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاست دانوں، فوجی آمروں، جرائم پیشہ افراد سمیت کئی دیگر افراد کا نام بھی شامل ہے۔ان افراد میں پاکستان کے دو سابق جنرلز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سابق آئی ایس آئی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبد الرحمان ہیں اور دوسرے جنرل زاہد علی اکبر ہیں۔جسم توانا، چست اور مضبوط، وردی اْجلی شفاف اور بے داغ اور سینے پر رنگین تمغوں کی تین قطاریں جن سے معلوم ہوتا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ کتنے فوجی معرکوں میں شریک ہو چکے ہیں۔پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ اور بعد میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات رہنے والے جنرل اختر کا یہ خاکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد یوسف نے کھینچا ہے۔جنرل اختر نے قیام پاکستان سے قبل سنہ 1946 میں رائل برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کی اور تین جنگوں میں شریک رہے۔اس کے باوجود اْن کی عسکری زندگی کا سب سے اہم معرکہ وہ ہے جسے سرد جنگ کا نکتہ عروج بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔جنرل اختر اور افغان جنگ سے متعلقہ کہانیاں تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ بہت سی کہانیاں سینہ بہ سینہ آج بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان سب کہانیوں پر بحث ہو سکتی ہے لیکن ایک حقیقت ایسی ہے جس پر ان کے دوست اور مخالف سب متفق ہیں۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانوں جنگجوؤں کی گوریلا صفات کی شناخت سب سے پہلے جنرل اختر نے کی۔ اس جنگ کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر آنے والا دن افغانوں کی اس شناخت کو مضبوط بناتا جا رہا ہے۔جنرل ضیا الحق کے دور میں ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر نے فوج کی راولپنڈی کور کی قیادت کی، پھر 1987 سے 1992 تک چیئرمین واپڈا رہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کے عہدے پر بھی کام کیا۔جنرل مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان پر رشوت ستانی (کرپشن) کے علاوہ آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگایا۔مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق انھوں نے نیب کو اعترافی بیان دیا اور 20 کروڑ (200 ملین) روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کو انٹرپول کے ذریعے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ کروشیا سے بوسنیا میں داخل ہو رہے تھے لیکن برطانوی شہریت کے سبب انھیں بوسنیا سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا۔نیب دستاویزات کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کے 77 بینک اکائونٹس تھے جن میں 20 کروڑ سے زائد رقم جمع کرائی گئی تھی۔ یہ بینک کھاتے اْن کے قریبی عزیز اور مختلف کمپنیوں کے نام پر تھے۔ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر پاکستان آرمی کی انجینئرنگ کور کے ایک انجینیئر افسر تھے جو آرمی کے صدر دفتر یعنی ‘جی ایچ کیو’ راولپنڈی میں سول تعمیرات کے نگران تھے۔