سیاسی منظر نامے پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی لڑائی تیز ہوتے ہی عوامی حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں سے ملک میں بہتری لانے کی امید کیونکر وابستہ کی جا سکتی ہے جو اقتدار کے فوائد مل کر سمیٹتی اور بحران کے وقت مفاہمت و بہتری کی بجائے ایک دوسرے سے لڑتی ہیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ بعض مقبول سیاسی قوتوں کا کھیل سے باہر ہونا پی ڈی ایم نامی اتحاد کے اقتدار کا راستہ بن گیا۔ پی ڈی ایم بنیادی طور پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد تھا جس میں بعدازاں دیگر جماعتوں کو شامل کیا گیا۔ اس اتحاد کو ٹھیس اس وقت پہنچی جب پیپلزپارٹی نے بعض فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے کا الزام لگا کر خود کو اتحاد سے الگ کرلیا۔ اس علیحدگی کے باوجود پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کے ایجنڈے پر ایک دوسرے کی ساتھی رہیں۔ اچھے برے قانونی و غیر قانونی اور آئینی و غیر آئینی اقدامات میں دونوں نے اتحادی کا کردار ادا کیا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر شہبازشریف کو اپنا وزیراعظم کیا۔ حکومت بننے سے پہلے اتحادیوں کے اجلاس میں آصف زرداری نے رانا ثنا اللہ کو وزیر داخلہ بننے کی قبل از وقت مبارکباد پیش کی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اور اس کے قریبی رفقا پی پی قائدین کی جمہوری جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ مریم نواز تو گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی قبروں پر گئیں اور فاتحہ پڑھی۔ اس خیر سگالی اور باہمی محبت سے یہ تاثر ابھرا کہ دونوں جماعتیں اپنے ماضی کے اختلافات کو دفن کر کے ملک میں جمہوری ترقی معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر تیار ہیں۔ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں کے باہمی تعلقات 1990 کے عشرے میں بدترین الزام تراشی سیاسی دشمنی اور رقیق حملوں پر رکھی گئی۔ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے جب دونوں جماعتوں کے گرد شکنجہ کسا تو مسلم لیگ ن کے اندر سے ق لیگ اور پیپلزپارٹی کے بطن سے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ برآمد ہوئیں۔ ان دونوں نئی جماعتوں ایم ایم اے اور ایم کیو ایم کو مختلف کردار سونپ کر جنرل پرویز مشرف نے اپنا اقتدار مضبوط کیا۔ مسلم لیگ ن اس دور میں بے بس ہو چکی تھی۔ اس کے مددگاروں نے اس کے لیے دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ تو ممکن بنا دیا لیکن سیاست میں واپسی کے لیے مسلم لیگ ن کو کندھا پیپلزپارٹی نے دیا۔ 2006 میں لندن میں ہونے والا میثاق جمہوریت اس حوالے سے حوصلہ افزا تھا کہ دو بڑی جماعتوں نے جمہوری اقدار صوبائی خودمختاری پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کی غلامی نہ کرنے کا عہد کیا۔ یہ میثاق امریکی وزیر کنڈو لیزا رائس کے کہنے پر ہوا۔ بہرحال اس میثاق جمہوریت کے بعد عوام میں اسے عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے جمہوری انتظامیہ کے دل میں پیدا گنجائش کے طور پر دیکھا گیا۔ 2008 کے انتخابات کے بعد دونوں نے مخلوط حکومت بنائی۔ چند ماہ کے بعد فطری اختلاف زندہ ہوگیا۔ دونوں ایک دوسرے کو کوسنے لگے۔ یہ اختلاف پرورش پاتا رہا حتی کہ میاں نوازشریف پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف خود کالا کوٹ پہن کر عدالت میں جا پہنچے۔ یوسف رضا گیلانی نااہل قرار پائے۔ اگلی باری مسلم لیگ ن کی تھی۔ 2013 سے 2018 تک مسلم لیگ نواز نے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دونوں جماعتوں کی نظریاتی شناخت ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ اگر انہیں مشترکہ سیاسی خطرے کا سامنا نہ ہو تو ان میں کوئی چیز مشترک نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت گرانے کے لیے پی ڈی ایم نے مہنگائی اور معاشی ابتری کو اپنا محور بنایا۔ بڑے دعوے کئے گئے کہ تجربہ کار شخصیات اور مستحکم تنظیم کے باعث پی ڈی ایم ملک میں استحکام لے آئے گی۔ کئی چھوٹی جماعتوں کو اقتدار کے فوائد دے کر اتحادی بنایا گیا۔ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ جو دعوے کئے وہ پورے نہ ہو سکے۔ مہنگائی 13 سے بڑھ کر 50 فیصد تک جا پہنچی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر سے گرے اور ساڑھے تین ارب ڈالر تک چلے گئے۔ برآمدات تیزی سے کم ہونے لگیں سٹاک مارکیٹ روز کریش ہونے لگی۔ ایل سی کھولنے کے لیے رقم نہ رہی۔ ڈالر اور پٹرول کے نرخ آسمان کو چھونے لگے۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی کارکردگی یہ ہے کہ آج مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور ان کی جونیئر اتحادی جماعتوں کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی قانون سازی پہلے ہی کئی شکوک پیدا کر رہی ہے۔ سولہ ماہ کا اقتدار مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور ان کی اتحادی جماعتوں کے لیے ایک ناخوشگوار بوجھ بن چکا ہے۔ آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں انتخابات ہوں تو یہ جماعتیں بری طرح سے مہنگائی سے تنگ عوام کے ردعمل کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ دونوںکو اقتدار میں رہ کر جن مسائل کا اندازہ نہیں ہورہا تھا اب وہ مسائل عوام کا سامنا کرتے ہوئے کھل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنے حالیہ دور اقتدار کی خرابیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا کر دراصل اپنی ذمہ داری سے فرار کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس تازہ جھگڑے سے کم از کم یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ میثاق جمہوریت صرف اقتدار کے فائدے بانٹنے کا معاہدہ ہے۔ اقتدار نہ ہو تو کوئی جماعت اس میثاق کی روح کے مطابق کام کرنے کو تیار نہیں، نہ ہی میثاق معیشت یاد رہتا ہے۔
٭٭٭