امسال پاک امریکن وکلاء برائے حقوق کے وفد کو پاکستان میں مختلف کانفرنسوں، سیمیناروں، استقبالیوں میں تعلیمی اور ثقافتی ایوارڈوں سے نوازا گیا جس میں سب سے پہلے30اگست کو پاک امریکن وکلاء حقوق کے جنرل سیکرٹری شاہد مہر جو اب علم قانون کے ڈاکٹر بن چکے ہیں جن کو کراچی یونیورسٹی آف لافیکلٹی نے امسال پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی جو ان کی گزشتہ پانچ سالوں کی دن رات کی اسٹڈی کی محنت تھی جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے ہھمیں سندھی ٹوپی اور اجرک پیش کی جبکہ سندھ بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اور سابقہ ڈسٹرکٹ بار کے کئی مرتبہ منتخب صدر نعیم قریشی نے بھی اپنے اجلاس میں ہمیں سندھی ٹوپی اور اجرک دی علاوہ ازیں سندھ ایڈووکیٹ جنرل کے آفس کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاضی بشیر نے بھی سندھی ٹوپی اور اجرک سے نوازا جو ہمیں باعث فخر گزرا کہ سندھ کا کلچر آج بھی زندہ و پائندہ ہے۔جس سے ہماری بے تحاشہ حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ مزید برآں پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ کے سابقہ صدر رانا ضیاء الرحمان سابقہ سیکرٹری بابر مرتضٰے خان اور سپریم کورٹ بار کے سابقہ سیکرٹری شمیم ملک نے ایک استقبالیہ کا بندوبست کیا۔ جس میں لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اشتیاق احمد خان، لاہور ڈسٹرکٹ بار کے صدر رانا انتظار اور ٹیکس بار کے صدر نعمان یحیٰی نے شرکت کی جنہوں نے ہماری کارکردگی کی بنا سرٹیفکیٹ اور شیلڈ سے نوازا جس ہمیں بیرون ملک وکلاء تحریک کی بنیاد رکھنے اور لیگل کمیونٹی کی خدمت کرنے پر فخر حاصل ہوا جو ہماری مستقل حوصل افزائی کا باعث بنے گا کے جب بھی پاکستان میں کوئی بھی غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام اٹھائے جائیں گے تو پاک امریکن وکلاء برائے حقوق ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے گی۔ جب ہم سپریم کورٹ بار نہیں پہنچے تو پاکستان کے مشہور وکیل طلعت عباس خان نے ہماری رہنمائی اور سرپرستی کی جس سے ہم کو سپریم کورٹ بار کے وکلاء کنونشن اور چیف جسٹس کے اعشائیہ میں ملنے جلنے کا موقع ملا جس میں سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری ایڈیشنل سیکرٹری ملک شکیل، صائم چودھری اور دوسرے عہدیداران سے الگ الگ ملاقاتیں ہوئیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں وکلاء برداری اب بھی محرک ہے جو اپنی کانفرنسوں، سیمیناروں اور ریفرنسیوں سے وکلاء کی رہنمائی کر رہی ہے تاکہ پاکستانی عوام کی حقیقی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ جو عرصہ دراز سے دو چار ہیں تاہم پاکستان کے موجودہ درپیش مسائل بہت پریشان کن ہیں جس میں بے تحاشہ مایوسی اور لاپرواہی کا عنصر پایا جارہا ہے شہری کا ایک ہی سوال ہے کہ کل کیا ہوگا جو نہایت خطرناک ہے جب کوئی قوم اس قسم کے مسائل سے دوچار ہیں تو منفی سوچ میں اضافہ ہوتا ہے جو آخرکار بنگلہ دیش کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ جس کا ادراک شاید طاقتور اداروں کو نہیں ہے۔ جو بالکل بے قابو ہوچکے ہیں جس میں عدلیہ بھی قابل ذکر ہے کے موجودہ بندیال عدلیہ نے پارلیمنٹ کو بے اختیار بنا دیا کہ پارلیمنٹ جیسا قانون ساز ادارہ کوئی قانون سازی نہ کرپایا ہے مگر کوئی بھی قانون بنایا گیا تو بندیال عدلیہ نے اس کا کالعدم قرار دیا جس میں پارلیمنٹرین کا حق ووٹ اور ازخود نوٹس کی متاثرہ پارٹی کی حق اپیل سے محروم کیا گیا جوکہ ایک بذات غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے جس کی وجہ سے پاکستانی عدلیہ بدنام زمانے عدلیہ کہلاتی ہے جو شہریوں کو حق رائے دہی اور حق اپیل سے محروم کرکے دنیا بھر کے قانون کا مذاق اڑا رہی ہے۔ بہرحال پاکستان میں وکلاء برادری سے اب بھی امید ہے کے وہ آزاد انی سابقہ روایات کے مطابق کوئی تحریک چلا کر عدلیہ کو کا وجود لائے گی تاکہ پاکستان کو کسی شر اور فساد سے بچایا جاسکے۔
٭٭٭