نوازشریف وزیراعظم سے تندورچی! !!

0
50

قارئین وطن! آج کل ایران اور اسرائیل ہر انٹرنیشنل پلیٹ فارم کا موضوع ہے اسلامی ممالک کی عوام اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ ہے لیکن حکومتیں سوائے ایران سامراج کے طابع ہیں ایران نے اسرائیل پر حملہ کرکے ایک تو فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور دوسرا یہ کہ ان کو بتا دیا ہے کہ اسلام ابھی زندہ ہے میرے مرشد حضرت علامہ اقبال نے بہت پہلے کہ دیا تھا!
تہران ہو کر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
لیکن طاغوتی طاقتوں نے عالم اسلام کو تفرقوں میں بانٹ دیا اور ہم پر تو ہم پرست ملا اور حکمران بیٹھا دیئے۔ خیر آج بھی عالم اسلام اگر چاہے تو ایک ہو کر صہیونی طاقت کا مقابلہ کرسکتی ہے فلسطین کو اسرائیلی جبر اور معصوم لوگوں کے خون ناحق سے بچا سکتی ہیں۔ قارئین وطن! وطن عزیز کی سیاست میں ویسے تو روز ہی ہلچل مچی ہوتی ہے لیکن آج ن لیگ عرف”نوزل” لیگ بقول نواز شریف کے ایک کارندے میاں جاوید لطیف کے اس انکشاف کہ کے ہمارے سرحدی اور نظریاتی ادارے فوج کے ایک(OC) آفیسر کمانڈر نے شیخوپورہ کے ایک مافیا جو ہر طرح کے جرائم کی سرپرستی فرماتا ہے سے90کروڑ روپے لے کر شیخوپورہ ڈویژن سے5ایم این نے کو جتوایا ہے جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے جاوید لطیف کو معلوم ہونا چاہئے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ خریدنے کی ضرورت نہیں تھی البتہ تمہارے لیڈر نوزل لیگ کے سربراہ نوازشریف نے رات کو ایک بجے کھوکھر برداران جو اس کا کچن بھی سنبھالتے ہیں کو فون کرکے کورکمانڈر کے گھر روپوئوں کی بوریاں بھجوائی اور صبح خود بھائی بیٹی اور کھوکر صاحبان فارم45سے فارم47میں تبدیل ہوئے یہ ہے اصل حقیقت فروری کے انتخابات کی اگر آج صرف یاسمین راشد اور تمہارے لیڈر کا حلقہ کھول دیا جائے خدا کی قسم اس دن تمہارا لیڈر اور ن لیگ دونوں گٹر میں جاگریں گے۔ لیکن اصل سوال تو وہیں رہتا ہے کہ جاوید لطیف نے جو محافظ پاکستان جرنل عاصم منیر پر ا ور اس کے کمانڈروں پر جو اربوں روپوں کا الزام لگایا ہے کہ اس کے نتیجہ میں جعلی اسمبلی چوروں لیٹروں اور منی لانڈروں اور قاتلوں سے سجائی ہے کو کچھ تو غیرت کا مظاہرہ دکھانا چاہئے کہ خود میدان میں آکر جاوید لطیف کے الزامات کا جواب دینا چاہئے کہ وہ کون(OC) ہے جس نے جرنل صاحب آپ کو اور پوری فوج کو ننگا کردیا ہے۔
قارئین وطن! آج حفیظ اللہ نیازی، الیاس رانا، سلیمان غنی، حسن ایوب، منصور علی خان اور اوئے اوئے طلعت حسین تو جیسے عمران خان کے خلاف آگ اُگل رہا ہو کو سن رہا تھا ویسے تو سب نوازشریف کے خاص پیاروں میں شمار ہوتے ہیں سب کا یہ کہنا ہے کہ نوازشریف دوبارہ (ن) لیگ کی صدارت سنبھالنے والا ہے اور ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے ساتھ میدان کا رزار میں اترنے والا ہے لیکن آجکل جوoptics نظر آرہے ہیں باپ بیٹی کے کہ کہیں بیٹی تین دفعہ کے پرائم منسٹر کو تندوریاں نہ بنا دے اگلی دفعہ نواز تندوری بنا بیٹھا لکشمی چوک پر بٹ کڑائی پر روٹیاں لگا رہا ہو۔ بقول سلیمان غنی اور حس ایوب نوازشریف سب سے بڑا سیاست دان ہے اس کے پاس ویژن ہے معیشت کو ٹھیک کرنے کا پلان ہے اداروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کا فن جانتا ہے اور ان سب خوبیوں کی وجہ کہ وہ تین بار وزیراعظم رہ چکا ہے۔راقم کا استدلال ہے کہ نواز شریف تین بار کیا دس بار بھی وزیراعظم بنا دیا جائے وہ سوائے کرپشن لوٹ مار کے اور کچھ نہیں جانتا اور کرسکتا ہے وہ ایک ڈفر ہے اس کا ہر منصب خریدا ہوا ہے اپنے باپ اور خود اپنی کرپشن کی کمائی سے۔ ہماری سیاست کا مزاج1970کے الیکشن کے بعد سے بدل گیا ہے اور کرپشن نے آہستہ آہستہ گھر بنانا شروع کردیا تھا اور پھر یہ مرض ضیا الحق کے دور میں غیر جماعتی الیکشن میں نمودار ہوا پھر ہم نے کرپٹ کو لیڈر جانا جرنل جانا جج جانا اور پھر ان چار عناصر میں نوازشریف اور زرداری پیدا ہوئے باقی تو ان کے انڈے بچے ہیں لہذا مجھ کو نواز میں بڑے لیڈر کی کوئی خوبی نظر نہیں آتی جو شخص بول نہیں سکتا لکھ نہیں سکتا پڑھ نہیں سکتا جو ہر لمحہ احسن اقبال جیسے اوراپنے صمدی ڈار کا لکھنے اور پڑھنے کے معاملہ میں مرہون منت ہو وہ میرے عزیزوں کیسے بڑا ویزنری لیڈر ہوسکتا ہے بڑا لیڈر تو ایک اسٹیس مین ہوتا ہے رشوتوں کی گاڑی پر چلنے والا جس بھی بڑے منصب پر بیٹھ جائے یا بیٹھا دیا جائے وہ بونا ہی ہوتا ہے۔
قارئین وطن! ہمارے حلقہ احباب کے بہت ہی پیارے دوست آصف چوہدری ل ل ایم جن کی لافرم(Barry C Schneps)کو فارن فنڈنگ کیس میں بہت اچھالا گیا نے اپنے دفتر میں دوستوں کا ایک بڑا ہجوم عید ملن پارٹی پر مدعو کیا ہوا تھا چالیس پچاس دوستوں کے نام درج کرنا نہ تو حافظہ ساتھ دیتا ہے اور نہ ہی کالم کا دامن لیکن ان مرکزی دوستوں کا ذکر ضروری ہے جنہوں نے دور نیند کو سخت سردی میں گرم گرم بار بی کیو کھلا کر گرم رکھا حضرت ڈاکٹر پروفیسر شاہد چغتائی صاحب، زاہد خان جدون صاحب، پرویز شاہ غزنوی صاحب، اور نظام کے ڈائریکٹر نواب زادہ میاں ذاکر نسیم دیپالپوری، چوہدری آصف میزبان کے ساتھ ساتھ مجھ کو چھوٹے سے چوہدری شجاعت لگے کہ ہر دوست کی پلیٹ میں گرم گرم بوٹی رکھتے اور گلاسوں میں نیند انڈ بلتے کہ نہ کوئی بھوکا جائے نہ کوئی پیاسا محفل کے چیف گیسٹ مشہور زمانہ انقلابی لیڈر سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ جن کی لچھے دار گفتگو اور فیض کے شعر سنا کر محفل کو گرم رکھا میرے مسیحی وقت ڈاکٹر سائود انصاری صاحب نے بغیر ساز کے حسرت موہانی کی غزلیں سنا کر محفل کو لوٹا، شیخ شعیب صاحب، کامران انصاری اور مرزا آصف سوہنا نے گرم گرم بحث ومباحثہ میں قیدی نمبر804عمران خان کی خوب وکالت کی اتنے بڑے ہجوم دوستاں میں جو آواز گونج رہی تھی وہ مہر عارف سیالکوٹی کی تھی میزبان کو اپنے خا دوست میاں وحید مغل صاحب کا انتظار رہا کے وہ وعدہ کرکر نہیں پہنچے۔ عزیزان چمن کو اور راقم کو شدت سے بیرسٹر رانا شہزاد اللہ پاک اس کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے کی کمی محسوس ہوئی۔ محفل کا اختتام سلیمان کھوکھر نے با آواز بلند جرنل عاصم منیر کو مخاطب کرکے اس شعر سے کیا!
مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے
اُسے تو ہم سے ہی فرصت نہیں ملی
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here