” ایام بیض”

0
9

ایام بیض، روشن دن کو کہتے ہیں قمری مہینے کی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ، ان دنوں کی راتوں میں چاند کی خوب روشنی ہوتی ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایام بیض کے روزے کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔ خواہ گھر میں ہوں یا سفر میں۔ روزہ روحانی قوت کا اہم مظہر ہے، اللہ تعالی نے قرآن میں روزہ کو تقویٰ کا سبب قرار دیا ہے۔ آج کے پرفتن دور میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں، برائیاں بام عروج پر ہیں۔ آنکھ بند ہونے تک ہی دل و دماغ اور ہاتھ و پیر محفوظ رہتے ہیں، آنکھ کھلتے ہیں انسان گناہوں میں ڈوب سا جاتا ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین روزہ ایمانی قوت فراہم کرتاہے۔ زبان و دل، ہاتھ و پیر، آنکھ وکان اور جسم و روح کو پاکیزہ بناتا ہے اور اعضائے بدن کو روزے کی حالت میں رب کی رضا کا طالب بناتا ہے۔ اس لئے روزہ کا خاص اہتمام کرنے سے آج کے پرفتن دور میں خود کو شیطانی حملے اور زمانے کے شر و فتن سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ رمضان کا فرض روزہ اپنی جگہ سال میں ایک بار آتا ہی ہے ۔ اس کے علاوہ ایک مسلمان جس قدر ہوسکے اپنی سہولت کے حساب سے نفلی روزے کا اہتمام کرتا رہے۔ رسول اللہ ۖ نے متعدد قسم کے نفلی روزے رکھے ہیں، ان میں ایک قسم ایام بیض کے روزوں کی ہے جن کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ روزہ کے عمومی فضائل اپنی جگہ خصوصیت کے ساتھ بھی ایام بیض کے روزوں کے فضائل وارد ہیں۔ نبی ۖ نے ان پر ہمیشگی برتی ہے اور اپنی امت کو بھی اس کی تاکید فرمائی ہے۔ ایام بیض کے روزوں کی فضیلت سے متعلق نبی ۖ کا فرمان ہے: (صحیح البخاری:1979) ترجمہ: ہرمہینے میں تین دن روزے رکھ لینا اس سے زمانے بھر کے روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ ایام بیض کے روزے ان عبادات اور روزوں میں سے ہے جن کی رسول اللہ ۖ نے وصیت فرمائی ہے، چنانچہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان رتیہیں: (صحیح البخاری:1178) ترجمہ: مجھے میرے جانی دوست (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: (صحیح البخاری:1975) ترجمہ: ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا۔ دل کی صفائی اور اس کی پاکیزگی کے لئے یہ روزے نہایت ہی اہم ہیں، رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (صحیح النسائی:2384) ترجمہ:کیا میں تمہیں سینہ سے دھوکہ اور وسوسہ ختم کر دینے والی چیز کے متعلق نہ بتائوں ؟ ہر ماہ تین روزے رکھنا ۔ اس حدیث میں “وحر الصدرِ” سے مراد دل کا وسوسہ یا بغض وکینہ یا عداوت ودشمنی یا شدید غصہ ہے ۔ سبحان اللہ کتنی اہم ترین حدیث ہے دلوں کی پاکیزگی کے لئے، جو مومن ہمیشہ ان تین روزوں کا اہتمام کرے اس کادل صاف ستھرا رہے گا، وہ جھگڑے لڑائی سے دور رہے گا۔ دل کے خطرناک امراض بغض وحسد، کینہ وکپٹ ، غیض و غضب اور چغلی وغیبت سے اللہ کی توفیق سے بچتا رہے گا۔حضر کے علاوہ سفر میں بھی رسول اللہ ۖ یہ روزے رکھا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: (السلسل الصحیح:580) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضر و سفر میں ایامِ بیض (13۔14۔15) ا روزہ نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ ایام بیض کے روزے قمری تاریخ کے حساب سے ہرماہ تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھنا ہے۔ آپ ۖ نے ابوذررضی اللہ سے فرمایا: (صحیح الترمذی:761) ترجمہ: ابوذر! جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو۔ اگر کوئی وسط ماہ میں ایام بیض کے روزہ رکھا کرے تو بہتر ہے ورنہ کسی وجہ سے شروع ماہ یا آخر میں بھی تین روزے رکھنابھی جائز ہے۔ معاذہ عدویہ نے پوچھا ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے: (صحیح مسلم:1160) ترجمہ: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر پوچھا کن دنوں میں؟
انہوں نے فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرتے تھے کسی دن بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک ماہ میں تین روزے رکھنا ایام بیض کے روزے کہلائیں گے، یہ تین روزے شروع میں بھی رکھے جاسکتے ہیں، درمیان میں بھی رکھے جاسکتے ہیں اور آخر میں بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔ نیز اکٹھے یا متفرق (الگ الگ) طور پر دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ ایام بیض کے روزوں سے متعلق چند مسائل واحکام :
ایام بیض کے روزے رکھنا مستحب ہے یعنی ان روزوں کی تاکید آئی ہے کوئی انہیں رکھے تو بڑا اجر پائے گا اور کوئی چھوڑ دے تو گناہ نہیں ہے۔ تین روزوں کا اجر زمانے بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے ۔ ایام بیض کے روزے میں انگریزی کلینڈرکا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ قمری تاریخ کا اعتبار ہوگا اورافضل یہی ہے کہ مہینے کے تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کا روزہ رکھے تاہم شروع یا آخر میں بھی متفرق یا اکٹھے رکھے جائیں تو کفایت کرے گا۔ کوئی ہرماہ تین روزے رکھنے کی نذر مان لے اور اسے یہ نذر پوری کرنا دشوار گزرے تو قسم کا کفارہ ادا کردے نذر ختم ہوجائے گی۔ رمضان کے قضا کی نیت سے ایام بیض کے دنوں میں روزہ رکھنا محض قضا کہلائے گی یعنی قضا اور ایام بیض کے روزوں کی ایک ساتھ نیت نہیں کی جائے گی، پہلے قضا کے روزے مکمل کریں پھر جب وقت ملے تو ایام بیض کے روزے رکھیں ۔ صوم عاشورا، شوال کے روزے، صوم عرفہ اور ایام بیض کے روزے کی ایک ساتھ نیت سے تمام روزوں کا اجر ملے گا، ان شا اللہ
اگر کوئی ہرماہ ایام بیض کے روزے رکھتا رہا اور کسی دشواری کے سبب یا یونہی سستی سے کسی ماہ کا روزہ نہیں رکھ سکا تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔ خواتین اور ایام بیض کے روزے : عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ گھر میں رہتے ہوئے بچوں کی تربیت، گھر کی دیکھ ریکھ اور شوہر کے سامان کی حفاظت بیوی کے ذمہ ہے۔ اکثر عورتیں گھریلو کام کاج سے جلد ہی فراغت حاصل کرلیتی ہیں پھر ادھر ادھر جاکر غیبت، چغلی، لایعنی باتیں، گھروں کے قصے کہانیاں ایک دوسرے سے کرتی ہیں، اس طرح وہ اپنا گھر بھی توڑتی ہیں اور دوسروں کا گھر بھی برباد کرتی ہیں۔ یہ مرض عورتوں میں عام ہے جبکہ مرد دن بھر کام میں مصروف ہونے کے باعث بہت حد تک اس سے بچا رہتا ہے۔ جو مسلم عورت پانچ اوقات نمازوں کی پابندی کرے اور اپنی نمازوں میں خشو ع وخضوع پیدا کرے تو ہرگز زبان و دل کے مہلک امراض میں مبتلا نہیں ہوگی۔ دلوں کی طہارت و پاکیزگی کے واسطے ایام بیض کے روزے بہت مفید ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ رسول اکرم ۖ نے ان روزوں کو سینے کے دھوکے اور وسوسے کے ازالہ کا سبب بتلایا ہے، اوپر حدیث موجود ہے۔ لہٰذا تمام مسلمان عورتوں کو ایام بیض کے روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے، ان کے پاس فرصت بھی ہے، گھروں میں رہتی ہیں اور ضرورت بھی ہے زبان پر تالا لگانے اور ذہن و دماغ کو روحانی سکون دلانے کی ہے۔ زبان، ضمیر، کان، ہاتھ، پیر وغیرہ پر قابو پانے کے لئے روزہ سے بڑھ کر کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ الحمد للہ کتنی عورتیں ایام بیض کے روزے رکھتی ہیں اور خود کو امراض لسان، امراض قلب اور امراض بدن سے محفوظ رکھتی ہیں ۔ اگر کوئی خاتون خاص ایام میں ہو تو وہ شروع یا آخر ماہ میں تین روزے رکھ لیں، یہ بھی کافی ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ روزہ عورتوں کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں کے حق میں اپنے روز مرہ کے مشاغل وعادات کی وجہ سے زیادہ مفید ہے۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here