حج بیت اللہ کا مقصد !!!

0
109

جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے حج ایک عبادت ہے جیسے نماز، روزہ زکوة، ہے یہ تمام عبادات مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں کچھ عبادات بدنیہ اور جسمانی ہیں اور کچھ عبادات مالی ہیں کچھ عبادات روحانی ہوتے ہیں جیسے ذکر ہے اذکار ہے یہ قلبی عبادت کہلاتی ہیں، حج کا امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک جامع عبادت ہے یعنی مسلسل چار یا پانچ دن تک حالت عبادت میں مسلمان رہتا ہے ہرہر قدم پر اسے اتباع رسول کا خیال رکھنا پڑتا ہے جیسے نماز کے ہر ایکشن میں آپ کی نقل سے ہی ہماری نماز قابل قبول ہو سکتی ہے ۔ساری زندگی کی جمع پونجی اس پر خرچ کر دیتا ہے یا اپنی کمائی کابہترین حصہ حج کے موقعے پر خرچ کرتا ہے ۔نماز دین کا سرچشمہ ہے دین کا ستون ہے ساری زندگی جس خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا ہے اس جگہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے پورا حج دراصل اللہ تعالی کے ایک سوال کا جواب ہے یعنی جب اللہ تعالی نے تمام دنیا کے انسانوں کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا توتما ارواح کو جمع کیا اور ان سے سوال کیا کہ تمہارا رب کون ہے (الست بربکم )تو تمام روحوں نے جواب دیا کہ قالو بلا شہدنا کے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہمارے رب ہیں ۔ حج کاسب سے اہم رکن عرفات کا وقوف ہییعنی اگر کسی نے تھوڑی دیر بھی عرفہ کے میدان میں وقوف کرلیا تو اس کا حج ہو گیا ۔جس دن کو حج کا دن کہا جاتا ہے اس کا نام یوم عرفہ ہے اس دن فرشتوں کوانسان کے آگے جھکا دیا گیا ۔عرفہ کے معنی جمع ہونے کے ہیں یااکٹھا ہونے کے ہیں اس کے علاوہ عرفہ کے معنی معرفت اور پہچاننے کے ہیں یعنی یہ دن اپنے رب کو پہچاننے کا دن ہے اسی لیے اس جگہ کا نام میدان عرفات رکھا گیا ہے جہاں لوگ حج کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ یہ حج کا خاص رکن ہے اس کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں ہے ۔ اللہ تعالی کی شناخت کا ایک طریقہ تلبیہ پڑھنا اس کا ورد کرتے رہنا اور اللہ کو یاد کرتے رہناہے اللہ کا ذکر اس کی بڑاء ،بزرگی ،عظمت و جلال وحدانیت وکرم کے ذکر میں زیادہ زیادہ مشغول رہنا ہی عرفہ کے دن کے پسنددیدہ اعمال ہیں چاہے وہ حاجی یا غیر حاجی غور کرتے ہیں کہ عرفہ کے میدان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ کرنے کا حکم دیا ہے وہ نماز جو کہ فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ اول وقت پر نماز پڑھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حج کے موقع پر یہ بھی کم کر دیا جاتا ہے جمع بین الصلاتین کا حکم دیا جاتا ہیجب عرفات کے میدان میں اکٹھا ہوتے ہیں تو ظہر اور عصر کو ملا کر چار رکعت ،دو رکعت ظہر اور دو رکعت عصر کی باجماعت آپ نے پڑھاء اور اتباع ِ رسول میں ہمیشہ ایسے ہی پڑ ہی جائے گی۔ اتباع رسول کے مطابق حاجی ذوالحجہ کو منی میں جمع ہوتے ہیں وہاں سے اگلے دن صبح ظہر سے پہلے عرفات میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے ہر حاجی کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ظہر سے پہلے عرفات کے میدان میں پہنچ جائے اب یہاں پر اللہ تعالی کا حکم اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ ظہر اور عصر ملا کر پڑھا جائیاخطبے کے بعد جبل رحمت کے پیچھے آپ نے وقوف فرمایااور ذکر اور دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا اندھیرا چھانے لگاتا آپ نے مزدلفہ کا رخ فرمایا صحابہ رضی اللہ نیفرمایا یا رسول اللہ نماز نماز آپ نے فرمایا نماز تو آگے ہے مزدلفہ پہنچ کر آپ نے تین فرض مغرب کی اور دو رکعت عشا کی پڑھاء یہاں بھی آپ نے جمع بین الصلا ہی کی آپ کی زندگی کی یہ واحد رات تھی جب آپ نے تہجد نہیں پڑھی ۔ قربانی حج کے ارکان میں سے ایک ہے لیکن حج نہیں ہے دراصل حج عرفات کا وقوف ہے مغرب وہاں نہیں پڑھتے بلکہ عرفات سے چل پڑتے ہیں اور مزدلفہ میں مغرب اور عشا ملا کر جمع بین الصلو کرتے ہیں اس لئے کہ وقوف لمبا ہو عرفہ کا وقوف طویل ہو سکے غور کرنے کی بات ہے قربانی طواف و سعی، منی میں ٹھرنا، جمرات پر کنکریاں مارنا ، حج کے ارکان ہیں لیکن حج نہیں ہے ۔دراصل حج عرفہ کا وقوف ہے ۔ اس وقت اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا جاسکے اور اللہ سے جوعہد کر آئے تھے پیدا ہونے سے پہلے ہمارے روحوں سے جو وعدہ لیا گیا تھا کہ دنیا میں جاکر کر تم اللہ تعالی کی بڑائی قائم کرو گے اور اللہ کو یاد رکھو گے تو اس کو وہاں پر زیادہ یاد کیا جائے اپنے گناہ پر شرمندہ ہوکر استغفار کیا جائے اپنے وعدے کو یاد کرکے اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کرنیکا عہد کیا جائے۔
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا تمہیں وہ واقعہ یاد ہے جب ہم نے تم سب کو اس میدان میں جمع کر لیا تھاکہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں لوگوں نے کہا بے شک آپ ہی ہمارے رب ہیں ،ہر سال حج ہمیں یاد دہانی کرواتا ہیکہ کس طرح ہم نے تمہیں پیدا کرنے سے پہلے جمع کیا تھا اور اس وعدے کے ساتھ دنیا میں بھیجا تھا کہ مجھے یاد رکھو گے ۔اطاعت کرو گے تاکہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ ہمارے رب ہیں ،یا یہ کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے آبا اجداد نے کی تھی ،ہم تو بگڑے ہوئے معاشرے میں ہی پیداہوئے تھے لہذا آپ ان لوگوں کو پکڑیں میدان عرفات میں ہر سال ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کبھی اس کے عملی گواہ بن جاتے۔لہذا قیامت کے دن ہم یہ کہ کر نہیں چھوٹ سکتے ہیں کہ یا رب العالمین ہم لاعلم تھے یا بے خبر تھے۔
مشکو کی حدیث ہے ابن عباس رضی اللہتعالی عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم ہے عہد الست اسی زمین میں ہوا تھا ،خلافت اسی دنیا میں سونپی گئی تھی، آسمان میں نہیں، اسی جگہ پر یعنی عرفات کے میدان میں 9ذوالحجہ کو اسی لیے اس دن کو یوم عرفہ کہتے ہیں ۔یہ وہ زمین ہے جس میں سے کئی راز سر بستہ ہے جو عہد پیدا ہونے سے پہلے کر چکے ہیں اس کی بار بار یاد دہانی کرائی جاتی ہیکہ اس جگہ پر اللہ نے تمہیں خلافت اور نیابت عطا فرمائی تھی جس نے اس عہد کو یاد رکھا اور اس کے مطابق زندگی گزاری ، اللہ کو اپنا رب جانا ،اس کے احکام کی پیروی کی اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا،وہ کامیاب ہو گیا ۔
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں اس سوال میں انسان کی کامیابی ناکامی جنت اور دوزخ ہے کہ میری دی ہوئی چیزیں تمہارے پاس امانت ہونگی ،ملکیت نہیں ہوگی ،انسان کو نیابت دی جا رہی تھی ،شیطان کو جھکایا جا رہا تھا ،چہیتی مخلوق بنایا جا رہا تھا لہٰذا شیطان کو بہکانے کی اجازت دی جا رہی تھی اس کے بہکاوے میں آکر کسی کو اپنا رب ،اپنا پیشوا، اپنا رہنما، اللہ کے سوا نہ بنا لینا
الست بربکم
کا خلاصہ ہمارا کلمہ ہے لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں ہم نے مومنوں کے جان اور مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں یعنی اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔اللہ کی وحدانیت کو قائم کرنے کی کوشش میں تن من دھن سے لگے رہنا ہے اگر ہم حج کے عمل کو دیکھیں تو جب ہم حج کے ارادے سے غسل کرتے ہیں تو کپڑے بدل کر دو ان سلے کپڑے پہن لیتے ہیں پھر تلبیہ پڑھتے ہیں لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ترمذی کی حدیث ہے کہ اس میدان عرفات میں اس طرح اللہ کا ذکر کرو جس طرح میں کرتا ہوں اور مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیا آئے ہیں سب نے عرفات کے میدان میں اسی طرح اللہ کا ذکر کیا ہے اور وہ ہے چوتھا کلمہ لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر یحی ویمیت ابدا ابدا ذو الجلالِ والا کرام یعنی زندگی اور موت اس کے ہاتھ میں ہمیشہ رہنے والی ذات اللہ کی ہے اور وہ عزت والا ہے اور وہی جلال واکرام والاہے۔
ذوالحجہ کی فجر کی نماز کے بعدسے 13ذوالحجہ کی عصر تک یہ تکبیرات حج کو نہ جانے والے بھی کو پڑھتے رہتے ہیں وہ تکبیر( اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمدیہ دن حجاج اور غیر حاجی سب کے لئے فضیلت و برکت والا ہے تمام روحوں سے اللہ نے سے وعدہ لیا تھا صرف حاجیوں نہیں لہذا ہر شخص ان دنوں اپنا محاسبہ کرے کہ اس کی زندگی میں کون کون سی چیز ایسی ہے جو اللہ کیحکم کے مطابق ہے اس پر استقامت سے قائم ہو جائے اور اللہ نافرمانی کو اپنی زندگی سے نکال دے اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے کوشش ،دعا ،عمل ،اور جستجو میں لگ جائے۔ حاجی تین دنوں تک ان تکبیرات کا ورد کرتے رہتے ہیں ہمیں بھی ان کا ورد کرتے رہنا چاہیے ان کا اختتام پہلی جمرات پر کنکریاں مارنے ہر ہوتا ہے ہر کنکری مارنے پر (اللہ اکبر )کہتے ہیں
ویسے تو کہتے ہیں کہ تین مقامات ہیں جہاں ابراہیم حضرت ابراہیم علیہ السلام کو شیطان نے بہکایا تھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح نہ کرو۔
اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ شیطان سے تمہارا بھی ٹکرا دنیا میں جگہ جگہ ہوگا لہذا جہاں بھی کفر اور طاغوت اور شیطانی عمل دیکھو اس کے خلاف اللہ کے حکم کی تعمیل کرو حج کاایک اور عمل ذوالحجہ کو قربانی کرنا ہے یہ در اصل اپنے سر کی قربانی کے بدلے ہے ابراہیم علیہ السلام کے سنت ہے
علامہ اقبال نیکیا خوب فرمایاہے نہایت سدا و رنگین ہے داستان حرم انتہا اس کی حسین ابتدا اس کی اسماعیل
کہ اگر اللہ کی راہ میں سر کٹانا پڑے تو اس کے لیے بھی تیار رہیں
حج کا ایک رکن سر منڈوانا پڑتا ہے عرب کا رواج تھا کہ جب کوئی انسان غلامی سے آزاد ہوتا تو بال منڈوا دیتا تھا یہ سر منڈوانا اعلان برات ہے کہ ہر انسان انسان کی غلامی سے آزاد ہے اور صرف ہم اللہ کے غلام ہے دراصل سر منڈوانا اس بات کی علامت ہے
حج کی اصل روح یہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمان حج کی اصل روح کو چھوڑ کر فقہی مسائل میں الجھ گئے ہیں
حدیث حضرت انس رضی اللہ محمد صل اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ لوگوں پر عنقریب ایسا دور بھی آئے گا لوگ حج کریں گے مالدار لوگ حج کو جائیں گے لیکن تفریح کی خاطر اوسط درجے کے تجارت پیشہ لوگ حج پر جائیں گے لیکن تجارت کے خاطر علما اور مشائخ بھی حج کو جائیں گے لیکن ریا اور دکھاوے کے خاطر غریب لوگ بھی حج کو جائیں گے لیکن مانگنے کی خاطر یعنی اللہ کی رضا کسی کا بھی مقصد اور منشا نہ ہوگا
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ،آخری زمانہ آئے گا تو اللہ کے گھر کا طواف کر نے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی ۔سفر آسان ہو جائے گا۔روزی میں کشادگی آجائے گی ۔لوگ حج کر کے آئیں گے اور محروم کے محروم رہیں گے جو تھوڑا بہت ایمان ہوگا وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں کن لوگوں میں ہمارا ہمیں شمار ہوتا حج کی اصل روح کو سمجھ کر قربانی دینے والوں میں یا فقہی معملات میں الجھ کر اپنی آخرت برباد کرنے والوں میں
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواض کو مطلب ہے صدف سے یا گہر سے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here