70کی دہائی میں جب عام پاکستانیوں کو پاسپورٹ جاری ہونے شروع ہوئے تو ملک کی بہت بڑی تعداد مزدوروں محنت کشوں، پیشہ وروں نے ترک وطن بیرون ملک کا رخ کیا جو دنیا بھر میں جاکر آباد ہوگئے جس میں کثیر تعداد مشرق وسطہ میں پہنچی جو لاکھوں کی تعداد محنت ومشقت کرتے ہوئے پاکستان کی مالی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک طبقہ یورپ اور امریکہ اور کینیڈا میں آسٹریلیا وغیرہ آباد ہوا جو یہاں کے قانون کے مطابق یہاں کے شہری بن گئے جبکہ مشرق وسطیٰ کے پاکستانیوں کو شہریت نہ مل پائی ہے، امریکہ میں بھی اوورسیز پاکستانی امریکن اسی طرح آباد ہوئے جس طرح دنیا بھر کے شہری آباد ہوئے تھے یا ہو رہے ہیں جو سیاسی انتقام ،معاشی بدحالی اور مذہبی تشدد کی وجہ سے امریکہ میں آکر آباد ہوئے تھے، اسی طرح پاکستانی بھی امریکہ، کینیڈا یا یورپ میں اپنی مالی پریشانیوں ،سیاسی انتقامی کارروائیوں یا پھر مذہبی نفرتوں اور حقارتوں کی وجہ سے آباد ہوئے ہیں جو آج عرصہ دراز کی وجہ سے کافی حد تک خوشحال اور خوش وخرم نظر آتے ہیں جن کو امریکہ جیسے ملک میں وہ تمام قانونی اور آئینی سہولتیں میسر آئیں کہ وہ اپنے آپ کو پاکستان میں سیاسی، معاشی اور مذہبی طور پر محفوظ سمجھتے ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بعض اوورسیز پاکستانی امریکن نے امریکہ میں اپنی تمام آئینی اور قانونی آزادی اور جمہوریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ترک وطن پاکستان میں آمریت، فسطائیت، سخت گیریت اور فرسودیت کی حمایت کی ہے جو ایک ناقابل سمجھ اور تصور عمل نظر آیا کہ جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان پر غیر قانونی اور غیر آئینی مارشلا نافذ کیا ،ایک منتخب حکومت پر قبضہ کیا جنکی پارلیمنٹ کو برطرف کیا منتخب وزیراعظم زیڈ اے بھٹو کو پھانسی دی تو ہم جیسے جمہوریت پسندوں نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف امریکہ میں تحریک چلائی تو ہماری مخالفت میں بہت بڑی تعداد نظر آئی جو ہمیں غدار پاکستان کے لقب سے پکارتے جب 1988سے1999تک سویلین دور بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی شکل میں آیا تو وہ سویلین حکومتوں کے خلاف زہر اُگلا کرتے تھے جب بارہ اکتوبر1999 کو ایک اور جنرل مشرف نے اپنے پیشرائوں جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰی خان ، جنرل ضیاء الحق کی طرح ایک منتخب آئینی نواز حکومت کا تختہ الٹا تو ہم جیسے پاگل جمہوریت کے متوالوں نے احتجاج کا آغاز کیا تو پھر ہمیں بڑے بڑے معزز حضرات ڈاکٹروں پیشہ وروں کاروباریوں کی شکل میں سوٹ بوٹ پہنے جنرل ضیاء الحق کے بڑے بڑے کھانوں اور دعوتوںمیں آتے جاتے نظر آتے تھے۔ جو پاکستان میں ہر سول حکومت کے مخالف اور جنرلوں کی حکومت کے حامی چلے آرہے ہیں، جنرلوں نے سول حکومتوں کے خلاف منصوبہ بندی، سازشوں کا جھال بچھا کر جنرلوں کی گود میں پیدا ہونے والے عمران خان کو بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد عوام پر مسلط کیا، اور پھر عمران خان کو جنرلوں نے دھرنوں اور پرنوں سے2018میں آخر کار تاریخی دھاندلی برپا کرکے اقتدار پر بٹھایا جن کے چار سالہ دور سلطانیت میں اپنے تمام مخالفین سے جیلیں بھر دی گئیں ملکی قرضوں میں دوگنا اضافہ، مہنگائی بے روزگاری میں اضافہ، کرپشن کے پُل باندھ دیئے جس کے ثبوت آج ان کے پالنے والے سامنے لا رہے ہیں کہ کس طرح جنرلوں نے ججوں سے غیر قانونی بنی گالہ لیگلائیز کرایا ، فارن فنڈنگ پر آنکھیں بند رکھیں ،توشہ خانہ کے تحفے تحائف کو لوٹا گیا جس کے باوجود انہیں صادق اور امین کا لقب دیا گیا جو آج آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ جس کے باوجود اوورسیز پاکستانی امریکن جنہوں نے ماضی میں جنرلوں کی حکومتوں کی کھل کر حمایت کی تھی۔ آج وہی طبقہ عمران خان کا حامی ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک جمہوری ملک میں آباد ہیں یہاں بنا ثبوت لوگوں کو جیلوں میں ٹھونسا نہیں جاتا ہے جو آئین اور قانون کے پابند نظر آتے ہیں۔ مگر پاکستان میں آمریت، فسطائیت، سلطانیت اور حکومیت کے حامی ہیں ایسے شخص کی شکل میں جو زمانہ نو جوانی سے آج تک پلے بوائے، بدکردار، بداعمل چلا آرہا ہے جس کے کردار اور اعمال میں تضادات پائے جاتے ہیں جو ریاست مدینہ کا نام لے کر گمراہوں کو مزید گمراہ کر رہا ہے جو آہستہ آہستہ ایک جنونی کاٹ بن رہا ہے جس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
٭٭٭٭