قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی سب سے اہم دستاویز آئین پاکستان ہے۔ آئین میں ان اداروں اور منصب داروں کی ذمہ داریاں اور دائرہ کار واضح کر دیا گیا ہے جو قومی نوعیت کے امور میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔آئین عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات کو الگ الگ کرتا ہے ایک ادارے کو دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکتا ہے۔ آئین پاکستان زبانی طور پر ایک مقدس دستاویز قرار دی جاتی ہے لیکن عملی کیفیت یہ ہے کہ گروہ ، ادارے اور طاقتور شخصیات آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔عام آدمی دیکھتا ہے کہ آئین موم کی ناک بنا دیا گیا ہے تو اسے پورا نظام اجنبی معلوم ہونے لگتا ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔جمہوری ریاست کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کسی معاملے پر حتمی فیصلے کا اختیار عوام کو حاصل ہے۔ عوام یہ اختیار اپنے ووٹوں سے منتخب کئے گئے نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لاتے ہیں۔وطن عزیز کی پارلیمنٹ کو بالادست ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔تضاد اس معاملے میں بھی نمایاں ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کا مطلب ریاستی مفاد کو مختلف پہلوئوں سے جانچنے کا بندوبست ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔اراکین کا انتخابی نظام ایسا پیچیدہ اور مہنگا ہے کہ لائق اور کم وسیلہ لوگ انتخابی عمل میں شریک نہیں ہو سکتے۔گویا پارلیمنٹ میں عام آدمی کی بجائے مخصوص مراعات یافتہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد پہنچ رہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ انتخابی نظام غیر شفاف اور ناقابل اعتبار بتایا جاتا رہا ہے۔پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتیں انتخابی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کر چکی ہیں لیکن ان کے درمیان انتخابی اصلاحات پر اتفاق نہیں ہو پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں معاملات کو اپنے حق میں دیکھ کر اصلاحات سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔گویا اقتدار کے لئے عوام کی بجائے مخصوص متبادل انتظام پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔اس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انتخابات میں جیت کر عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی بلکہ ان قوتوں کو خوش کرنے پر زور لگایا جاتا ہے جن کی وجہ سے یہ لوگ ایوان میں پہنچتے ہیں۔ کسی سماج میں اس وقت جھگڑے بڑھنے لگتے ہیں جب تنازعات طے کرنے کا نظام اپنا کام نہ کر رہا ہو۔وطن عزیز میں ایک چلن نظر آتا ہے، جو فساد اور انتشار پھیلانے کی تھوڑی بہت صلاحیت کا مالک ہو اسے احترام دیا جاتا ہے۔ قانون پسند مفید شہری ریاست سے اس کے غیر منصفانہ طرز عمل کی شکایت کے سوا کچھ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ بدقسمتی یہ کہ سماج میں ایسے دانش مند افراد کی کمی واقع ہو رہی ہے جو جھگڑے نمٹا دیا کرتے تھے۔کہنے کو ملک میں کئی سیاسی جماعتیں متحرک ہیں۔ ان کے قائدین کے لئے عظیم الشان خطابات استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اہلیت کا حال یہ ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ سے ملک مسلسل حالت انتشار میں ہے۔فسوسناک امر یہ کہ اس عوامی مینڈیٹ کی برے طریقے سے توہین کی جا رہی ہے۔سپیکر ڈپٹی سپیکر اور جماعتی قیادت کا کردار تنقید کی زد میں آ رہا ہے، قوانین کو بدل کر اپنے خلاف مقدمات ختم کراتے ہیں استعفوں کے معاملے پر آئین کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔معاملات عدالت میں پہنچتے ہیں تو غیر ضروری طور پر سماعت کا عمل سست ہونے لگتا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے ملک میں تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں۔ملک کو زرمبادلہ کی کمی کا سامنا ہے۔سکیورٹی و معاشی پالیسی کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے لیکن متعلقہ شخصیات ذاتی مسائل کو حل کرنے اور ذاتی مفاد کو تحفظ دینے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ہر کوئی دوسرے کی پگڑی اچھال رہا ہے ملک میں انتشار بڑھ رہا ہے جمہوری نظام خطرے سے دوچار ہے لیکن مکالمے رابطے اور اتفاق رائے کو راستہ نہیں دیا جا رہا۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی کشمکش میں ریاست کا مفاد قربان ہو رہا ہے۔پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی پالیسیوں کو ناکام قرار دے کر اقتدار حاصل کیا لیکن ان 13جماعتوں کی کارکردگی اس قدر بری ظاہر ہوئی ہے کہ ملک تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران کا شکار ہے۔پی ڈی ایم کے پاس عملی طور پر ملک کے مسائل حل کرنے کا کوئی طریقہ کار ہے نہ عوامی تائید حاصل ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف ہے جسے سال گزشتہ کے ضمنی انتخابات میں بھر پور حمایت ملی۔ یہ پذیرائی بدستور موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا ملک صرف ایک جماعت چلاتی ہے۔جمہوری نظام میں ہر ووٹ کی ایک اہمیت اور ہر رکن پارلیمنٹ کا ایک کردار ہے۔پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں اور ان کے اراکین کو عوامی مینڈیٹ ملا ہے۔
٭٭٭