جب ہم میکسیکو کے شہر تیخوانا پہنچے جو سان ڈیاگو سے آدھے گھنٹے کے ڈرائیو پر ہے تو ہمیں ایسا لگا کہ ہم سندھ کے دوسرے شہر حیدرآباد آگئے ہیں، دونوں شہر میں مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مچھلیاں انتہائی ذائقہ دار ملتی ہیں لہٰذا میری بیٹی شہر کے سب سے عالیشان ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑی روکی اور جیسے ہی گاڑی رکی تو ایک شخص دوڑا ہوا آیا اور ایک پرچی اُسے تھمادی، وہ گاڑی لے کر رفو چکر ہوگیا، میں ریسٹورنٹ کی میزبان نوازی اور عملے کی خوش اخلاقی سے بہت متاثر ہوا،صرف یہی نہیں بلکہ دو منیجرز بھی سوٹ اور ٹائی لگائے ہوئے وہاں مٹر گشت کر رہے تھے ، اور ویٹرز کی تندہی سے نگرانی کر رہے تھے، میں اب تک کسی بھی پاکستانی ریسٹورنٹ حتیٰ کہ کراچی کے سب سے اعلیٰ ریسٹورنٹ میں ایسے نگران منیجر کو سوٹ بوٹ میں کام کرتے ہوئے نہیں دیکھاہے ،بہرکیف میری بیگم نے دو بڑی بڑی مچھلیاں جن کی لمبائی ایک فٹ کے برابر ہونگیں اور اِسکے ساتھ پینے کیلئے آووکاڈو کے شربت کا آرڈر دے دیا، یہ ایک مکلملا”ہسپانوی لنچ تھا. مچھلی ذائقہ دار اور مقدار میں کافی تھی لہٰذا ہم چار لوگوں نے سیر ہو کر کھایا، میں نے ازراہ کرم ایک ویٹر سے ہسپانوی زبان میں یہ پوچھ لیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم یہاں بارڈر وال دیکھ سکیں، اُس ویٹر نے یہ سمجھا کہ شاید ہم لوگ میکسیکو سے امریکا بارڈر وال سے چھلانگ لگا کر جانا چاہتے ہیں، اُس نے کئی سوالات مجھ سے پوچھنے کے بعد اپنے اُسی سوٹ بوٹ والے منیجر سے گفتگو کرنے کیلئے لے جانے کی کوشش کی، میں نے بات وہیں ختم کردی، ریسٹورنٹ کا بِل 60 ڈالر آیا تھا جو انتہائی مناسب تھا، ٹِپ دے کر گاڑی واپس لینے کے بعد ہم تیخوانا کے شاپنگ سینٹر دیکھنے چلے گئے ، میرے صاحبزادے تو تین سو ڈالر کا میکسیکو پیسو خرید کر وہاں گئے تھے، جیسے اُنہیں وہاں کوئی گھوڑا خریدنا ہو، اُنہوں نے مجھے بھی کہا تھا کہ میں بھی کم ازکم سو ڈالر کا پیسو خرید لوں، میں نے جواب دیا تھا کہ مجھے کو ئی گائے اور بکری تیخوانا میں نہیں خریدنی ہے۔ تیخوانا کے شاپنگ سینٹر کو دیکھ کر انتہائی مایوسی ہوئی ، سب سے پہلے تو گاہکوں کی تعداد انتہائی کم تھی ، دوئم اشیاء خوردونوش یا میکسیکوکی کاٹیج انڈسٹری کے بنے ہوئے تحائف ، نوادرات یا سووینئر نا ہونے کے برابر تھے۔ تازہ سبزیوں کا تو نام و نشان تک موجود نہ تھا حالانکہ امریکا کی سُپر مارکیٹوں میں تو میکسیکو سے درآمد کی ہوئی سبزیوں کی بھر مار ہوتی ہے لیکن وہ سبزیاں خود وہاں کے عوام کو دستیاب نہیں یا اُن کی خرید قوت سے متجاوز ہیں، یہ صورتحال سوچنے کی متقاضی ہیں، تحفے کیلئے بس بڑے بڑے میکسیکن ہیٹس تھے یا مٹی کے بنے ہوئے کچھ معمولی سے برتن تھے۔ اِس کے باوجود بھی ہماری بیگم اور بیٹے نے کچھ چیزیں خریدنے سے باز نہ رہ سکے ، اور نہ میں اُنہیں روک سکا ، کیونکہ یہ میری فطرت نہیں ، غریب لوگوں کے سُپر مارکیٹ کے بعد ہم نے امیروں کے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کی جانب رخ کیا ، وہ اسٹورز بالکل امریکا سے مقابلہ کر رہے تھے بلکہ خریدنے والے لوگ بھی امریکی معلوم ہورہے تھے تاہم ایک چیز میکسیکو میں جو مجھے عجوبہ معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ وہاں کے ہر بلاک میں دو فارمیسی کے اسٹورز تھے۔ اِس کی کیا وجہ تھی یہ معمہ بھی تا ہنوز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، لوگ کہتے ہیں کہ میکسیکو میں دواؤں کی قیمتیں امریکا سے چالیس فیصد کم ہیں یہی معلوم کرنے کیلئے میں ایک فارمیسی جو ڈیپارٹمنٹل سٹور میں واقع تھی ،وہاں گیا اور دریافت کیا کہ اُنکے پاس مخصوص پلز موجود ہیں؟ فارماسسٹ نے ایک ڈبے میں ایک پلز لاکر مجھے دی، میں نے قیمت دریافت کی تو سر ٹھنک کر رہ گیا، قیمت 50 ملی گرام کے ایک پلز کی قیمت39 ڈالر تھی، میں تو سمجھتا ہوں کہ وہی پلزامریکا میں دس ڈالر کی ملتی ہے۔
میکسیکو جانے کا شوق ہمیں صرف اِس وجہ کو تھا کہ ہم وہاں بارڈر وال دیکھ سکیں لیکن بعد ازاں ہمیں پتا چلا کہ ہم بارڈر وال امریکا کی طرف سے دیکھ سکتے ہیں اور ہمارے شوق کو امریکی امیگریشن کے عملے نے خاک میں ملا دیا، ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں لائن میں لگیں ہوئی تھیںاور امیگریشن کے اہلکار جس سست رفتاری سے کام کر رہے تھے اُسکا تصور کرنا بھی محال ہے ، سونے پر سہاگا سینکڑوں کی تعداد میں گداگر، گاڑی کے ونڈ شیلڈ صاف کرنیوالے افراد ،متفرقہ فروش گاڑیوں پر تقریبا”حملہ آور ہوگئے تھے، اِسی کسمپرسی کے عالم میں ہم اپنی باری کا دوگھنٹے تک انتظار کرتے رہے لیکن ہماری تمام کوششیں رائیگاں گئیں جب ہم پارک پہنچے جہاں سے بارڈر وال کا نظارہ کیا جاتا ہے وہ بند ہوچکا تھا۔
اِس سے ایک دِن قبل سان ڈیاگو کے کرو ناڈو بیچ پر اِسٹنگ رے نے مجھ پر حملہ کرکے سخت کرب و اذیت میں مبتلا کردیا تھا، ہم سارے لوگ حسب معمول اِس ساحل سمندر پر گئے تھے، میں تیرتے ہوئے کچھ آگے نکل گیا تھااور اپنے بیٹے اور بیٹی کو اپنے قریب آنے کیلئے پکار رہا تھا، اِسی دوران اِسٹنگ رے نے انتہائی منظم طریقے سے میرے بائیں پیر کے تلوے کو اپنے تیز دھار دانتوں سے ڈنک مارا اور میری چیخ نکل گئی، متاثرہ حصے سے خون رسنے لگے ،میں اپنے بچوں کے ساتھ ساحل پر آگیا، میری بیٹی اور بیٹے دوڑتے ہوئے بیچ کے آپریشنل آفس پہنچے، اُنہوں نے کہا کہ اپنے ڈیڈی کو یہاں لے آئیں ِ، اُنہیں اپنے پیر کو گرم پانی جس کا درجہ حرارت 110 ڈگری سے 120 تک ہے اُس میں رکھنا ہوگا ، جس کے آدھے گھنٹے بعد اُنکے درد میں کمی آنا شروع ہوجائیگی تاہم ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں فورا”واپس ہوٹل چلے جانا چاہیے جو قریب ہی واقع تھا، میری بیگم راستے میں وال گرین میں رُک کر ہائیڈرو پر آکسائیڈ کی ایک بوتل ، پین کلرز اور بونڈیج خرید لی، ایک گھنٹے بعد حملے کی کوئی بات بھی مجھے یاد نہ تھی۔واضح رہے کہ بیچ کے حکام نے اِسٹنگ رے اور جیلی فش کی اطلاع کے نوٹس آویزاں کردیئے تھے جو افراد اُسے دیکھ نہ سکے تھے وہ اُسکا نشانہ بن رہے تھے۔