پھجے دے پائے!!!

0
89
عامر بیگ

زمانہ طالب علمی میں داتا صاحب کے عقب میں واقع وٹنریری کالج المعروف گھوڑا ہسپتال لاہور میں میرے ایک دوست سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے انہیں اکثر ڈپریشن کا دورہ پڑتا اور وہ اس میں افاقہ کرنے کی غرض سے مجھے ساتھ گھسیٹ کر ہیرامنڈی لے جاتے، اچھے دوست تھے ،دوستی کی خاطر یا شاید یہ سوچ کہ کل کلاں کو اگر ایس پی یا ڈپٹی کمشنر لگ گیا تو کام آئے گا لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ ہو لیتا وہاں پر اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی جاننے والا ٹکرا جاتا ،گلے ملنے پر کھسیانے ہوئے بغیر یہ تاریخی جملہ ادا کرتا کہ ہم تو پھجے کے پائے کھانے آئے تھے حالانکہ پجھے کے پائے کی ایک برانچ کمشنر آفس کے سامنے ہمارے ہوسٹل کے پچھواڑے میں کھل چکی تھی جہاں ہم لوگوں کو ہمہ وقت ففٹی پرسینٹ رعائتی نرخ پر کھانا میسر تھا ،مستقبل قریب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے والد بلوچستان کی نمائندگی میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے انیس ممبرز میں سے ایک ممبر تھے قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھے مطلب سیاست گھٹی میں ملی خود بھی ہائی کورٹ آف بلوچستان کے ڈائریکٹ چیف جسٹس نامزد ہونے سے پہلے وکلا تحریک کے سرگرم کارکن رہے ،قاضی صاحب کو سینئر بیرسٹر اعتزاز احسن کے کہنے پر اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چوہدری افتخار احمد نے تحریکی کاوشوں کے عوض بلوچستان کی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کیا ،حدیبیہ پیپرز ملز کا اوپن اینڈ شٹ کیس میاں فیملی کو بچانے کے لیے قاضی صاحب نے عمر بھر کے لیے بند کر دیا ،اس پر اب کچھ لکھنا بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے خود سپریم جوڈیشل کونسل میں انگلینڈ میں بیوی کا پراپرٹی کیس بھگت رہے ہیں ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اختلافات کی خبریں زبان زد عام ہیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تگ و دو میں قانونی جنگ کا آغاز بھی ہوا چاہتا ہے، حکومت کی طرف سے اس لڑائی میں جان ڈالنے کے لیے قاضی صاحب کیخلاف دائر پٹیشن واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے اپنے تعیں کچھ تحفظات کا اہتمام بھی کر لیا ہے، دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، ان حالات میں موصوف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب پاکستانی سیاست کے گڑھ وفاقی پارلیمنٹ میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریبات میں غیر سیاسی گفتگو کرنے پہنچ جاتے ہیں وہاں زرداری صاحب کے پہلو میں بیٹھ کر خطاب فرماتے ہیں ویسے تو وہاں جانا ایک جسٹس کی شایان شان نہیں لیکن اگر چلے ہی گئے تھے تو اپنے خطاب کے بعد وہاں سے نکل لیتے مگر نہ صرف سیاستدانوں کے خطابات سنتے رہے بلکہ کھسیانے سے ہو کر چشم تصور میں پھجے دے پائے بھی کھاتے رہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here