اس کے علاوہ آپ کی گرانمایہ کتابیں ”اخبار الاخیار”، جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب، جامع البرکات، مرج البحرین فی جمع بین الطرفین(شریعت وطریقت)” زہدة الاثار منتخب بہجتہ الاسرار(غوث اعظم کے مناقب میں) زاوالمتقین، فتح المنان فی مناقب نعمان( حضرت امام اعظم سے متعلق) شرح فتوح الغیب، تکمیل الایمان وتقویت الایقان ان کتابوں کے علاوہ ثبت من السنتہ اور مدارج النبوة بھی مشہور ومعروف ہیں اور ذوق مطالعہ رکھنے والوں کو وافر معلومات فراہم کرتی ہیں، یہ کتابیں معلومات کے اضافے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ حضرت محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا خبردار! خشک ملا نہ بننا، ہمیشہ محبت رسول ۖمیں سرشار رہنا۔ عشق نبیۖ سے بہرہ ور ہوتے رہنا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اس پر عمل کیا اور اس کے خوش آئند نتائج انعامات الہیہ کے طور پر ایسے برآمد ہوئے کہ میں لفظوں کے پیکر میں ڈھال نہیں سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے حضرت محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ جہاں ایک متجر عالم اور مایہ ناز محدث وفقیہ تھے وہیں تصوف کے میدان کے بھی ایک بہت بڑے شہسوار تھے۔ علوم باطنیہ اور تزکیہ نفس سے متعلق آپ نے کتابیں بھی لکھیں تاکہ مسلمان بالخصوص علماء اس سے استفادہ کرتے ہوئے عرفان الٰہی کا حسین تمغہ حاصل کرسکیں اور خداوند قدوس اور اس کے حبیب مکرمۖ کی رضا حاصل کرسکیں اور علما کے اندر بھی فنافی اللہ اور فنافی الرسول ہونے کا جذبہ بے کراں پیدا ہو۔ میرے اس دعوے کے استشہاد میں حضرت محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابل قدر تصانیف میں زادالمتقین اور توصیل المریدالی اداببیان الاحکام والا ضراب والا ورادپیش کی جاسکتی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد مکرم کی طرح ایک اعلیٰ درجے کے نعت گوشاعر بھی تھے۔ آپ نے سرور عالمۖ کی مدحت سرائی میں ساٹھ ابیات پر مشتمل ایک مایہ ناز قصیدہ کہا۔ صرف قصیدہ کہا ہی نہیں بلکہ قصیدہ کی تکمیل کے بعد آپ نے روضہ رسول انامۖ میں حاضر ہو کر پورا قصیدہ پڑھا۔ آپ کی تصنیف لطیف اشعتہ المعات فی شرح المشکوة جس کی تکمل آپ نے چھ سال کی محنت شاقہ کے بعد کی۔ اس کی روشنی میں چند اہم باتیں جن کا تعلق خالص اعتقادیات و ایمانیات سے ہے، پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں۔ آپ پڑھیں اور بغور پڑھیں اور اپنے ایمان کو جلا بخشیں۔
٭٭٭