غزل!!!

0
83
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

چند سال قبل ممتاز شاعرسرور انبالوی مرحوم کی رہائش گاہ ڈھیری حسن آباد راولپنڈی میں ماہانہ طرحی مشاعرہ ہوتا تھا جس کی اکثر صدارت کا اعزاز مجھے حاصل ہوتا اور ممتاز شاعر اور سرجن جنرل محمود الحسن مہمانِ خصوصی ہوتے۔ میدانِ شاعری سجتا ۔ میری ان مشاعروں میں طویل غزلیات کی دھاک بیٹھ جاتی اور سارے شہر میں مشہور ہو گیا کہ مقصود جعفری نے ایک طرحی مشاعرہ میں ایک سو پچاس شعر کی غزل پڑھ کر حاضرینِ محفل کو ششدر کر دیا۔ ایک دن اسلام آباد میں مقیم شاعرِ شباب و انقلاب جوش ملیح آبادی کو ایک طرحی غزل کے چند اشعار سنائے۔ اشعار کی تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ آپ پختہ اور زود گو شاعر ہیں۔ طرحی غزل میں آمد کی جگہ آورد کی کرشمہ سازیاں اور فن کاریاں ہوتی ہیں۔ آپ صاحبِ وجدان ہیں۔ آئندہ طرحی مشاعروں سے گریز کریں۔ اس دن کے بعد میں نے طرحی مشاعرے تو کیا مشاعرہ پڑھنا ہی چھوڑ دیا، میں پروفیشنل شاعر نہیں ہوں، علامہ اقبال کا مرید و معتقد ہوں وہ بھی مشاعرے نہیں پڑھتے تھے۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر علمی اور ادبی رابطہ احبابِ نقد و نظر سے رہتا ہے۔ ان کے توصیفی جملے راحتِ جاں ہیں۔
یہ پرانی طویل طرحی غزل ہے جسے اقساط میں نذرِ قارئین کرتا ہوں۔گر قبول افتد زھے عزو شرف
ہم بزمِ دوستاں میں خرامِ بہار ہیں
دشمن کا سامنا ہو تو خنجر کی دھار ہیں
مہجور و اشکبار، بڑے بیقرار ہیں
ہم بے خطا اسیرِ غمِ انتظار ہیں
اہلِ ہوس تو دہر میں مثلِ غبار ہیں
جو اہلِ دل ہیں نابغ روزگار ہیں
تیرے لئے تو دونوں جہاں اشکبار ہیں
یہ تو نہیں کہ ایک ہمیں سو گوار ہیں
کوئی تو اِس حصارِ ستم کو گرائے اب
کیا لوگ میرے عہد کے بے اختیار ہیں؟
ہم سے کرئے گا کون نئی شاعری کی بات
ہم تو جہانِ شعر کے پروردگار ہیں
ہیں بے وفا سے ملنے کے مسدود راستے
ہر بے وفا سے ملنے کے رستے ہزار ہیں
وہ تیز گام ایک ہی منزل کی دھن میں ہے
ہم سست رو تو جاد غم کا شکار ہیں
اپنی خوشی سے آئے تھے، اپنی خوشی اٹھے
ہم آپ اپنی شان ہیں، اپنا وقار ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here