پہلا ہیکل سلیمانی عراقی یا بابلی حکمران بخت نصر نے تباہ کردیا اور سب بنی اسرائیل کو غلام بنا کر عراق لے جایا گیا۔یہیں پر پہلی بار بائبل کو، جو کہ پہلے صرف زبانی روایات پر مشتمل تھی، تحریر کیا گیا پھر ایران کے سائرس دی گریٹ نے عراقیوں یا بابل کے لوگوں کو شکست دی اور یوں یہودیوں کو ایک بار پھر غلامی سے نجات ملی اور وہ پھر فلسطین میں آباد ہو گئے۔وہاں پھر دوسرے ہیکل کی تعمیر شروع ہوئی جس کی تکمیل حضرت مسیح کی پیدائش سے 516 سال قبل مکمل ہوئی پھر حضرت مسیح کے واقعہ صلیب کے ستر سال بعد یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ رومیوں نے مار مار کر ان کا بھرکس نکال دیا اور پھر ان کو دیس نکالا مل گیا۔یوں یہودی پھر دنیا میں بے گھر ہو گئے۔ کچھ مڈل ایسٹ کے مختلف ملکوں کو نکل گئے، کچھ شمالی افریقہ اور یورپ کی طرف۔ اس کو جیوش ڈائیسپورا کہا جاتا ہے۔یہودیوں کا خیال تھا اور ہے کہ ہیکل پھر تیسری بار پھر تعمیر ہوگا۔ مگر یہ ہیکل حضرت مسیح کریں گے۔اسلامی علاقوں میں تو یہودی لوگوں کی مالی حالت بہت اچھی تھی اور انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی مگر یورپ کے اندر ان کی حالت ہمیشہ بہت بری رہی۔ جب دل کرتا ان کا قتل عام شروع کر دیا جاتا اور ہر قدرتی آفت کا ذمہ ان کی منحوس موجودگی کو قرار دیا جاتا۔ یوں صدیوں تک یورپین یہودی بہت بری زندگی بسر کرتے رہے۔ انگلش کا لفظ سلمز Slums یہودیوں کے گندے اور تنگ آباد علاقوں کو کہا جاتا تھا جہاں یہ جانوروں سے ذرا بہتر زندگی گزارتے تھے۔
پھر ہوا یہ کی یورپ میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوگیا اور یوں یورپ میں تعلیم عام ہو گئی۔ یہودیوں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور تعلیم کے میدان میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے، طب، بینکنگ، قانون، سائنس اور ریسرچ وغیرہ کے شعبوں میں اپنی محنت اور لگن سے اچھا نام کمایا اور یوں یہ پورپ کے خوشحال لوگ بن گئے مگر اب ان کی دل میں چھپی خواہش کہ ہمارا بھی اپنا ایک وطن ہونا چائے باہر آنا شروع ہوگئی مگرمسئلہ یہ تھا کہ یہودی مذہبی رہنماں کا خیال تھا کہ ہم اپنے وطن واپس تب جائیں گے جب مسیح کا ظہور ہوگا اور وہ ہمیں وہاں لے کر جائے گا اور تیسرا ہیکل تعمیر کرے گا۔پڑھے لکھے یہودیوں نے اس Fairy tale پر یقین کرنے کی بجائے سوچا کہ کیوں نہ ہم ایک قوم بن کر جدوجہد کریں اور اپنا وطن حاصل کریں۔ یوں صیہونی ( Zionism) تحریک نے جنم لیا۔ یہ ایک مذہبی نہیں بلکہ قومی اور سیکولر تحریک تھی۔ اس کی قیادت پڑھے لکھے یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔پہلی صیہونی کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر بیذل ( Basel) میں آگست 1897 میں ہوئی جو 1948 میں اسرائیل کے قیام پر منتج ہوئی۔ اکاون سال کی قلیل مدت میں اس تحریک نے یہودیوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرکے ان کا واپس فلسطین جانے کا خواب پورا کرکے دکھایا اور اسرائیل کو ایک طاقت بنانے میں بھی انہی پڑھے لکھے یہودیوں نے اہم رول پلے کیا مگر تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ ایرانی، جنہوں نے انہیں بابلی یا عراقی غلامی سے نجات دلوائی تھی، اب انہی یہودیوں سے بری طرح مار کھا رہے ہیں۔
٭٭٭










