”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پارلیمنٹ سے خطاب”

0
92
پیر مکرم الحق

1923ء کے آئین کی سالگرہ کے موقعہ پر پارلیمنٹ میں ایک کنونشن ہوا جس کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کی دعوت پر جسٹس فائز عیسیٰ کو دوسرے ججوں کے ساتھ مدعو کیا لیکن دوسرے ججوں نے ہمت نہیں پکڑی لیکن عدلیہ کے ہیرو ہمارے ہیرو جسٹس فائز عیٰسی نے10اپریل کے حوالے سے یوم آئین کے موقعہ پر پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ جہاں تک میرے علم میں یہ غالباً پہلا موقعہ تھا کہ سپریم کورٹ کہ کسی جسٹس نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا ہے۔جوکہ ایک اچھی بات ہے پارلیمنٹ آئین وقانون سازی کرتا ہے اور عدلیہ آئین و قانون کی تشریح کرتی ہے اور اپنے فیصلوں کے ذریعے قوانین کو لاگو کرتی ہے۔ تو ان دونوں اداروں کا گہرا تعلق ہے ایک دوسرے کے ساتھ ماضی میں عدلیہ نے آمروں کا ساتھ دیا ہے مستقبل قریب کے چیف جسٹس قاضی فیض عیٰسی نے یوم آئین کے موقعہ پر پارلیمنٹ میں آکر نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ عوام کیلئے منتخب نمائندوں ایوانوں میں آکر عوام کو اور ان کے حقوق کو توقیر دی ہے۔ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدالتوں کا رابطہ رہنا ایک آئینی عمل ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری کے عمل میں سینٹ یا ایوان بالا کا ایک اہم رول ہے۔ نامزد جج صاحبان کو پارلیمانی ممبران کے سوالات کا تسلی بخش جواب دینا انکی نامزدگی کے عمل کو مکمل کرنے کی آخری سیڑھی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہے ہرگز نہیں کہ جن سیاستدانوں نے انہیں نامزد کیا ہے یا مدد دی ہے انکے خلاف وہ جج کوئی فیصلہ نہیں دیتے۔ چند برس پہلے امریکا کے صدر (اسوقت کے) نے لیکن سپریم کورٹ کے جج مقرر کئے تھے نامزد بھی کیا اور پارلیمنٹ سے منظور بھی کروایا تھا۔ جب 2020ء کے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بائیڈن نے بھاری اکثریت سے شکست تھی تو ٹرمپ کو یہ خوش فہمی تھی کہ انکی مبینہ دھاندلی کی شکایت کا آخری فیصلہ تو سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے۔ تو وہاں انہیں کے قلم سے جو تین جج صاحبان براجمان ہیں وہ تو لازمی طور پر انہی کا ساتھ دینگے اس امید ہے ٹرمپ صاحب نے دھڑے سے نچلی عدالتوں سے رد کی گئی درخواستوں کو سپریم کورٹ لے گئے۔ موصوف کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انہیں کے نامزد کردہ تینوں ججوں نے انکی درخواست کو میرٹ پر رد کردیا۔ آخر کار یہ امریکا کی سپریم کورٹ کے عزت ماب جج صاحبان تھے وہ سابق صدر ٹرمپ کی لغو باتوں اور غیر منطقی دلائل کو کیسے تسلیم کرتے۔ جسٹسعیسیٰ صاحب کی تقریر بھی مدلل تھی اور انہوں نے یہ بھی ہنستے ہوئے کہہ دیا کہ اگر میں آپ لوگوں کے بلانے پر اگر یوم آئین کی تقریب میں شریک ہونے آیا ہوں تو یہ مت سمجھیئے گا کہ میں آئین وقانون کی پاسداری کے خاطر آپ لوگوں کے خلاف فیصلہ کرنے میں کوئی پس وبیش نہیں کرونگا۔ انہوں نے اپنے اعلیٰ مرتب والا اور قائداعظم کی رفیق خاص قاضی عیٰسی کا بھی ذکر کیا اور بلوچستان کے لوگوں کی پاکستان بنانے کی کوششوں میں بھرپور شرکت کا بھی ذکر کیا یاد رہے کہ قاضی عیٰسی سمیت بلوچستان کے اکابرین نے قائداعظم کو سونے میں تو یہ تھا اور وہ سونا پاکستان کے ابتدائی دور میں مملکت خداداد کی مالی مشکلات کو حل کرنے کیلئے استعمال ہوا۔ آج کے ہمارے قومی رہنما کی طرح نہیں کہ ”میرا سونا میری مرضی” نہیں کیا گیا۔ بہرحال بلوچستان کے لوگوں نے سونا بھی دیا لیکن وہیں بات ہضم نہیں پھر انکے رہنمائوں کے خوف سے بھی ہاتھ رنگے گئے اور آج بھی بلوچستان کے لوگوں کو اپنے وسائل سے وصول ہونے والی خصوصیات میں بھی جائز حصہ نہیں دیا جارہا ہے۔ قاضیعیسیٰ نے بلوچستان کے ایک اور قد آور جج دراب پٹیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ جسٹس دراب پٹیل پر فخر ہے وہ پارسی مذہب سے منسلک تھے۔ انہوں نے اس موقعہ پر جسٹس کاشف ٹائیں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے چیف کورٹ کے صدر کی حیثیت سے مولوی تمیز الدین کے مقدمہ میں اسمبلیوں کی تحلیل کیخلاف فیصلہ دیا تھا۔ اس موقعہ اگر جسٹس کارلیناس(جوکہ کرسچین) اور جسٹس رانا بھگوان داس کے فیصلوں کے اعلیٰ معیار کا ذکر نہیں کیا جائے تو سراسر زیادتی ہو گی۔ افسوس کی بات یہ ہے ان غیر مسلم ججوں کے مقابلے میں اگر جسٹس منیر اور بیشمار مسلم ججوں کے معیار انصاف کو پرکھا جائے تو شرمندگی ہوتی ہے۔بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ کی سربراہی کی نوید آج کے عدالتی ماحول کی گھٹن میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ انکی تقرری کے بعد سپریم کورٹ کی ساکھ بحال کرنے کی وہ کوششیں کرینگے۔ نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ صوبائی ہائی کورٹس کے معاملات بھی بہتری کی طرف بڑھیں گے ،اسی صورت میں ہوگی جس آئین وقانون کی بالادستی ہوگی ورنہ دن بدن حالات خرابی کی طرف جائیں گے لیکن کروڑ عوام کی آنکھیں اب اس امید روشن ہیں کہ شاید اب انکی تقدیر کا ستارہ چمکے گا۔(انشاء اللہ)
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here