قارئین کرام! پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں اُتار چڑھائو اس حد تک پہنچ گیا ہے جہاں اپنی فوقیت برقرار رکھنے اور سیاسی ابتری کیلئے اخلاقیات و معاشرتی اقدار کی تمام حدود کو پار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا جاتا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے ارکان و عہدیداران اور حمایتیوں نے جو گند اُچھالا ہے بالخصوص سیاسی پارٹیوں کے میڈیا سیلز اور ٹوئیٹ ہینڈلرز نے جس طرح کی زبان اور مائوں، بیٹیوں، بہنوں، بہوئوں پر تہمت طرازی کی ہے وہ کسی مذہب، اخلاق و انسانیت کے معیار سے مناسب نہیں ہو سکتا ہے۔ اس اخلاق سوز کردار میں کوئی بھی کردار یا جماعت ماوراء نہیں ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جو بد زبانی، ہذیان اور غلیظ الزامات کا اظہار کرتا ہے وہی کامیاب نظر آتا ہے۔ یہ رویہ اور مزاج اس امر کا واضح اظہار نظر آتا ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ اخلاقیات کی انتہائی پستیوں میں گِر چکے ہیں۔ اس حقیقت کے مظاہر سوشل میڈیا ہی نہیں کرنٹ افیئرز کے پروگراموں، اقتدار کے ایوانوں، راہداریوں اور سرکاری اور نجی اجتماعات و نشستوں تک نظر آتے ہیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں وطن عزیز کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے فیصلہ سازوں کو مناسب عملی اقدامات و فیصلے کرنا ہونگے۔ حالات کی ابتری میں سیاسی عدم استحکام و غیر یقینی رحجانات منفی اور تباہی کا پیش خیمہ ہونے کیساتھ اخلاقیات کی گراوٹ معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ گزشتہ ہفتہ میں رونما ہونیوالے واقعات اس کی واضح مثال ہے۔ ٹرانس جینڈر کے مجوزہ قانون پر حکومتی و مخالف سیاسی اشرافیہ پر بحث و مباحثے اور بیانیئے تو جاری ہی تھے ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر ہر دو جانب سے غلاظت کے ڈھیر لگا دیئے گئے تھے۔ ابھی یہ طوفان تھما بھی نہیں تھا کہ ایک جانب وزیراعظم ہائوس میں ہونیوالی گفتگو کی آڈیو لیک اور مفرور سابق وزیراعظم کے سمدھی و سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی اور وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کا ہنگام سیاسی بحث کا سبب ہوئے تو دوسری جانب اس حوالے سے سیاسی منظر نامے پر ہر دو جانب کے رہنمائوں اور حلیف و حریف میڈیا کے متضاد تبصروں و مستقبل کے حالات پر بحث نے عوام کے ذہنوں کو مزید اُلجھا کر رکھ دیا ہے۔
قارئین یقیناً گزشتہ ہفتے کے ان واقعات و اقدامات کی تفصیل سے چینلز پر خبروں اور پروگراموں کے توسط سے آگاہی حاصل کر چکے ہونگے لیکن اس حوالے سے ہمارے اور عوام کے اذہان میں بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں ہونیوالی گفتگو جو مریم نواز کے داماد سے ہوئی یا! اور پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفوں کے سلسلے میں ہوئی وہ کیوں اور کیسے لیک ہوئی۔ اس کی کیا اہمیت اور کس کے فائدے میں ہے کہ اس آڈیو لیک کی فروخت لاکھوں ڈالر میں بیان کی جا رہی ہے اور ملکی سیاست پر اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔واضح رہے کہ متذکرہ لیکس ایک دو نہیں140گھنٹے پر مشتمل بتائی جارہی ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایوان وزیراعظم ریاست کا اہم ترین اعلیٰ مرکز ہے اور وطن عزیز کے تمام تر رازوں، فیصلوں و اہم معاملات کا امین ہوتا ہے تو اس ادارے میں نقب زنی یا لیکیج کا کیا جواز بنتا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے سول معاملات کا کسٹوڈین پرنسپل سیکرٹری ہوتا ہے جبکہ قومی مفاد، سیکیورٹی و ملکی تحفظ کے امور کا کسٹوڈین ملٹری سیکرٹری ہوتا ہے۔ تمام معاملات کا ریکارڈ محفوظ کرنا متعلقہ ایجنسیز کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود آڈیو لیکس کا وقوعہ صرف ایوان وزیراعظم ہی نہیں رائیونڈ میں بھی باعث تشویش ہی نہیں سیکیورٹی خدشات کا بھی سبب بنتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ملک کا وزیرداخلہ آڈیو لیکس کے اس ایشو کو معمول کی بات قرار دے رہا ہے۔ شنید یہ ہے کہ متعلقہ ایجنسیز کی نمائندوں پر مشتمل ٹیم نے تحقیقات مکمل کر لی ہے اور رپورٹ قومی سلامتی کمیٹی کو پیش کی جائیگی۔ کمیٹی میں وزیراعظم، اہم وفاقی وزراء کیساتھ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف اور تمام سروس چیف شریک ہونگے۔
آڈیو لیکس کا ایشو یقیناً حساس ترین و تشویشناک معاملہ ہے اور امید ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اس حوالے سے آمدہ نتائج کے مطابق کوئی لائحہ عمل مرتب کر کے آئندہ کیلئے تدارک کریگی، اعلامیہ بھی سامنے آئیگا لیکن عوام کی تسلی و تشفی کی حد تک۔ دوسری جانب ن لیگی حکومت کے دور میں ڈالر کو منجمند رکھنے اور بعد میں آنیوالی پی ٹی آئی حکومت کو معاشی مشکلات سے دوچار کرنے والے اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کی چابی دینا بھی عجیب معاملہ ہے۔ وطن سے مفرور سابق وزیر خزانہ کی واپسی وارنٹ کے تعطل اور جس سے فیصلہ ساز اس کی پالیسیوں کے باعث ناخوش تھے اس کی دوبارہ وزیر خزانہ بننے پر تعیناتی امپورٹڈ حکومت کیلئے باعث تقویت ہوگا یا فیصلہ سازوں کی جانب سے سرد مہری کے باعث احتجاجی اقدام کے طور پر لیا جائیگا؟ آنے والے چند ہفتے اس کا جواب بنیں گے، بہر حال ایک حقیقت ضرور سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں سیاست، عدالت، ریاست کے تمام تر اقدامات متعینہ وجوہ و مفادات کے تابع ہی ہوتے ہیں، میرٹ، انصاف اور عوام کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ آڈیو لیکس کی بازگشت اور کپتان کے حوالے سے بھی ایسی لیکس کے خدشات، پس پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ، ٹرانس جینڈر کا جھگڑا اور سب سے بڑھ کر سیاسی بے چینی و معاشی مشکلات کی موجودہ صورتحال اس اندیشے کو تقویت دیتی ہے کہ سیاسی رقابت کے اس کھیل میں نظام کی تبدیلی اور تیسری قوت کی آمد قوم کا مقدر ہے۔ اس خدشے کی اہم ترین وجہ آڈیو لیکس کا سامنے آنا ہے کہ اس کا فائدہ سیاسی اشرافیہ کو تو نہیں ہو سکتا ،حالات کس رُخ پر جا رہے ہیں؟ ۔
٭٭٭