پاکستان نے بیمار معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے توسط سے بحال کرنے کے لیے ایک نئی ویزا پالیسی متعارف کرائی ہے تاکہ دنیا بھر کی کاروباری افراد اور اداروں کو ڈالر کی کمی کے شکار ملک میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جا سکے۔ یہ فیصلہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے تحت ہونے والے دو روزہ مشاورتی اجلاس میں کیا گیا جو کہ پی ڈی ایم کی سابق حکومت کی جانب سے ملک کی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔یہ سول ملٹری ہائبرڈ باڈی ہے۔نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہشمند غیر ملکی تاجروں کے لیے نئے آسان ویزا نظام کی منظوری دے دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو غیر ملکی تاجر پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں انہیں ان کے ملک یا بین الاقوامی کاروباری تنظیموں کی جانب سے ایک دستاویز کی بنیاد پر آسان ویزے جاری کیے جائیں گے۔اگر پاکستان کے چیمبر آف بزنس یا کاروباری تنظیمیں کسی غیر ملکی تاجر کو دستاویز جاری کرتی ہیں تو انہیں بھی آسان ویزے جاری کیے جائیں گے۔وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ اس نئے ویزا نظام کے تحت پاکستان کاروبار اور معیشت کے ایک نئے دور میں داخل ہو گا۔نگران وزیر خارجہ نے الگ بریفنگ میں بتایا ہے کہ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) ممالک نے سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ساوتھ ایشیا پریس کے مطابق پاکستان کی موجودہ صورتحال پچھلی دو دہائیوں میں درپیش سب سے مشکل ہے۔ ملک، اقتصادی بحران، سیاسی افراتفری اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کر کے معاشی بحران کو ٹالا جا سکتا ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں ایک معیشت میں رہنے والا سرمایہ کار دوسری معیشت میں موجود کاروبار پر دیرپا دلچسپی اور قابل ذکر حد تک اثر و رسوخ قائم کرتا ہے۔ ایک معیشت میں کسی کاروبار میں 10 فیصد یا اس سے زیادہ کی ملکیت دوسری معیشت میں سرمایہ کار کی طرف سے اس طرح کے تعلق کا ثبوت ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری بین الاقوامی اقتصادی انضمام میں ایک کلیدی عنصر ہے کیونکہ یہ معیشتوں کے درمیان مستحکم اور دیرپا روابط پیدا کرتی ہے۔ یہ ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ایک اہم ذریعہ ہے، غیر ملکی منڈیوں تک رسائی کے ذریعے بین الاقوامی تجارت کو فروغ دیتی ہے اور اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم انجن ثابت ہو سکتی ہے۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی مثال کیا ہے؟عرب امارات میں ٹیلی فون سروسز فراہم کرنے والی کمنی اتصالات کا پاکستان کے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں سرمایہ کاری ڈائریکٹ فارن انوسٹمنٹ کہلائے گی۔ دوسری مثال یہ کہ ایک امریکی صنعت کار کسی غیر ملکی کمپنی میں دلچسپی لے سکتا ہے جو اسے درکار خام مال فراہم کرتی ہے۔کسی غیر ملکی فرم میں سرمایہ کاری کو ایف ڈی آئی تصور کیا جاتا ہے، اگر یہ دیرپا دلچسپی قائم کرتی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی کنجیکنٹرول کا عنصر ہے۔ کنٹرول غیر ملکی فرم کے کاموں کو فعال طور پر منظم کرنے اور اس پر اثر انداز ہونے کے ارادے کی نمائندگی کرتا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری غیر محتاط شرائط کے ذریعے لائی جاتی رہی ہے جس سے بعض قانونی مسائل پیدا ہوئے اس لئے اب جبکہ پاکستان کو سرمایہ کاری کی ضرورت محض ڈالر کی کمی دور کرنے کے لئے محسوس ہو رہی ہے تو ان ذرائع پر توجہ دینے میں مزائقہ نہیں جو پاکستان کے پاس پہلے سے دستیاب ہیں۔ پی ٹی آئی کے دور میں ایسی پالیسیاں اختیار کی گئیں جن کی وجہ سے سمندر پار پاکستانیوں نے فراخ دلی سے رقوم بھیجیں۔ریکارڈ بتاتا ہے کہ چار سال کے دوران سالانہ اٹھارہ ارب ڈالر کی ترسیلات زر بتیس ارب ڈالر تک جا پہنچی تھیں۔ پی ٹی آئی حکومت نے تارکین وطن کو ووٹ کا حق دیا، ان کے لئے روشن ڈیجیٹل اکاونٹ قائم کیا جس سے ہنڈی اور حوالہ کی بجائے تارکین نے بینکنگ چینل کے ذریعے رقوم بھیجنے میں دلچسپی لی۔ تارکین وطن کے مطالبے پر الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا قانون بنایا گیا۔مالی وسائل میں اضافہ ہونے کے ساتھ ان اقدامات نے بیرون ملک پاکستان کا تشخص بہتر بنانے میں مدد دی۔بلاشبہ اس کا سیاسی فائدہ پی ٹی آئی کو ملا لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ پاکستان کو معاشی مسائل سے نمٹنے میں مدد ملی۔پی ڈی ایم حکومت نے تارکین وطن کو پی ٹی آئی کا ووٹر سمجھ کر ہر اس رعایت کو ختم کیا جس سے تارکین خوش ہو رہے تھے۔اس کا دوسرا ردعمل یہ سامنے آیا کہ بیرون ملک مقیم افراد نے اپنے ملک سے مالیاتی تعاون میں کمی کردی۔پاکستان کے لئے درآمدات کا بل ادا کرنا مشکل ہو گیا ہے، ڈالر کی کمی ہوئی تو طاقتور مافیا ڈالر ذخیرہکرنے لگے، ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن کے مطابق پی ڈی ایم حکومت کے اپنے لوگ ڈالر کے نرخ بڑھانے کے دھندے میں شامل بتائے گئے۔نگران حکومت کے سیاسی عزائم نہیں، تارکین وطن کے دل میں اس حکومت لئے وہ نفرت نہیں جو پی ڈی ایم نے خریدی تھی۔ایک گنجائش موجود ہے جسے بروئے کار لا کر تارکین وطن سے چھینے حق رائے دہی کو واپس کیا جاسکتا ہے اور جواب میں ان سے ترسیلات کے ضمن میں تعاون طلب کیا جا سکتا ہے۔ غیر ملکی افراد کی نسبت اپنے لوگوں پر بھروسہ کرنا گھاٹے کا سودا نہیں۔دوسرا یہ کہ غیر ملکیوں کو صرف ویزہ سہولت کی ترغیب سے راغب نہیں کیا جاسکتا ،اصل معاملہ کاروبار دوست ماحول کی فراہمی کا ہے جو مقامی سرمایہ کار کا بھی حق ہے۔
٭٭٭