اگرچہ عمران خان کی سازشی پرورش کا سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جاری ہوا تھا جب جنرل ضیاء الحق نے ایک کرکٹ سے ریٹائرڈ کھلاڑی36سالہ عمران خان کو دوبارہ کرکٹ کا کپتان بنا دیا جو1992ء تک بنا رہا ہے جس کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل گل حمید نے خان صاحب کو گود لے لیا۔جن کی گودی کا سلسلہ جنرل مشرف تک جاری رہا۔ جس کے دوران جنرلوں نے عمران خان کو سیاستدانوں کے خلاف تبلیغ کرنا شروع کردی کہ پاکستان کے تمام سیاستدان چور ہیں جو آج عمران خان کا مقبول ترین نعرہ بن چکا ہے کہ وہ ایماندار ہیں باقی سب چور ہیں جنرل مشرف کے دور میں عمران خان کو دھاندلی کرکے میانوالی سے ایک سیٹ سے جتوایا گیا جو جیتنے کے بعد جنرل مشرف کے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا تو قاف لیگ کے ہر کارے پرویزالٰہی نے عمران خان کو جوتے جوتے لگا کر بھگا دیا۔ اسی دوران جنرل پاشا سامنے آگئے جنہوں نے عمران خان کو تسلیاں دینا شروع کردیں کہ آپ کو یقیناً وزیراعظم بنایا جائے گا مگر مزید تربیت کے بعد جنرل پاشا کے بعد آئی ایس آئی کے ایک اور سربراہ جنرل ظہیرالسلام نے گودی پیش کردی۔ جو عمران خان کی پوتڑے کافی عرصہ سے بدل بدل کر تھک چکے تھے جنہوں نے تجربے کے طور پر عمران خان کا چودہ اگست آزادی کے دن2014کو ایک احتجاجی دھرنا دلوایا جس میں کرایہ کامولوی طاہر القادری کو استعمال کیا جن کے پاس اسکولوں کے یتیم اور مسکین بچے بھی شامل تھے۔ دھرنا چار ماہ تک جاری رہا ہے جس پر سوا ارب روپیہ خرچ آیا جس کا آخر کار ناکامی کاخاتمہ تب ہوا جب پشاور آرمی اسکول پر دہشت گردی کاحملہ ہوا جس میں ڈیڑھ سو کے قریب اسکول کے بچے اور اساتذہ شہید ہوئے۔ جنرل ظہیر السلام کے بعد عمران خان کی گودی کی ذمہ داری چوتھے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید نے لی جنہوں نے25جولائی2018کے عام انتخابات میں ایک تاریخی دھاندلی برپا کرکے عمران خان کو جتوا کر پاکستان پر مسلط کیا جو پونے چار سال تک بطور مسلط وزیراعظم رہا جن کو آخر کار ملک کے دیوالیہ پن کے خوف سے عدم اعتماد کے ذریعے برطرف کیا گیا۔ جس کا انہوں نے الزام پہلے امریکہ پھر جنرل باجوہ پر لگا دیا کہ مجھے دونوں نے نکالنے میں سازش کی گی ہے حالانکہ عدم اعتماد ایک آئینی طریقہ کار ہے کہ جس میں وہ اتحادی ایم کیو ایم کے سات ووٹ اور باپ پارٹی کے دو ووٹ جو پہلے عمران خان کے ساتھ انہوں نے اپنی ہمدردی بدل کر پی ڈی ایچ کو دیئے گئے مگر الزام امریکہ کے بعد جنرل باجوہ کے سر تھوپ دیا جو اب تک قائم ہے۔ جس کے غصے میں عمران خان نے اپنی دو صوبوں کی حکومتیں توڑ کر پارلیمنٹس تحلیل کر ڈالیں جس کے بار بار انتخابات بلاجواز تحلیلی کا حربہ آج عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے کہ جس کا موضوع بحث90دن کے اندر اندر عام الیکشن اور ملتوی یا تاریخ دینے میں دیر کیوں ہے جس پر عدالت عظمیٰ کے ججوں میں بے تحاشہ تفریق پائی جارہی ہے۔ جو سمجھتے ہیں کہ صدر، گورنر اور وزیراعلیٰ نے آئینی اختیارات غلط اور ضروری استعمال کیئے ہیں۔ تاہم جنرلوں کے بعد ججوں کی گودی کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کہ عمران خان کی پہلے جنرل نگہبانی کیا کرتے تھے آج جج صاحبان کر رہے ہیں۔ جو عدالتوں میں پیش ہونے سے پر اپنی بے عزتی تصور کرتے رہے۔ عدالتیں عمران خان کو اس لاڈلے بچے کی طرح سلوک کر رہی ہیں جو تمام تر عدالتی نوٹسوں، حکموں اور ہمداریاتوں کے باوجود عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہا ہے۔ جس کی وجہ سے عدالتوں کے ججوں میں تقسیم پیدا ہوچکی ہے۔ جو ایک دوسرے پر شک وشبہات کر رہے ہیں کہ عمران خان کی اتنی حمایت کیوں کی جارہی ہے خبرحال عمران خان پاکستان کا واحد لیڈر ہے جن کے سلوک کی وجہ سے عوام، فوج، عدلیہ اور دوسرے ادارے تقسیم ہوچکے ہیں۔ اداروں کے اہلکاروں نے اپنے اداروں کا حکم ماننے سے انکار کردیا ہے جس پر بھارت اور اسرائیل میں جشن منائے جارہے ہیں جن کا خیال ہے کہ پاکستان جنگ کے بغیر ختم ہوچکا ہے جس کے ادارے آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔
٭٭٭