الیکشن تاریخ:از خود نوٹس پر حکومت کا ردعمل!!!

0
161

مسلم لیگ نون کے مشاورتی اجلاس میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کے متعلق سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے لئے تشکیل دیے گئے بنچ پر پارٹی رہنمائوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔میڈیا تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر باقاعدہ اعتراض کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن جج صاحبان پر مسلم لیگ نون پہلے اعتراضات کر چکی ہے انہیں بنچ سے الگ ہونا چاہیے۔اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے صدر مملکت کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے پر خط لکھنے کے معاملے پر شرکا کو اعتماد میں لیا۔وطن عزیز عجیب طرز حکمرانی کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک اصول اس وقت پتھر پر لکیر کا درجہ اختیار کر سکتا ہے جب آئین اس پر دو ٹوک فیصلہ دیدے۔آئین قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل اور انتخابات 90روز کے اندر کرانے کی شرائط بیان کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ضرورت کے وقت پانچ برس کی مدت مکمل ہونے کا انتظار ضروری نہیں۔ سیاسی نظام میں فیصلہ سازی کی کمزوری جھلکنے لگے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے۔پارلیمنٹ جمہوری گورننس کا مرکز کہلاتی ہے۔وطن عزیز میں حالت یہ ہے کہ سپیکر حضرات کھل کر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ڈپٹی سپیکر بھی اسی روش پر گامزن ہیں ایک اپنے فیصلے کو آئینی بتاتا ہے دوسرا دعوی کرتا ہے کہ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔پارلیمنٹ اس طرح کے مبہم ضابطوں اور جانبدارانہ رولنگ کے ساتھ چل ہی نہیں سکتی۔ یوں انتظامیہ اور مقننہ کا جو کردار آئین پاکستان نے متعین کر رکھا ہے اہل پاکستان دن رات اس سے انحراف دیکھتے ہیں۔ سیاسی غیر سنجیدگی پارلیمنٹ کے بعد اب عدلیہ کو نشانے پر لے چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کے اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے وزیر اعظم کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ وہ یہ اجلاس مسلم لیگ نون کے صدر کے طور پر بلا رہے ہیں یا بطور وزیر اعظم۔ اجلاس میں شہباز شریف نے جو کچھ کہا وہ جزوی طور پر بطور پارٹی صدر اور کچھ حصہ بطور وزیر اعظم کے بتایا گیا ہے۔پارٹی صدر کے طور پر شہباز شریف کو سب سے پہلے تو اپنی جماعت کی چیف آرگنائزر کی عدلیہ مخالف مہم کا جواب دینا چاہیے۔ بطور وزیر اعظم انہیں بتانا چاہیے کہ انتخابات کرانے کے متعلق اگر صدر مملکت تاریخ نہ دیتے اور حکومت کے تحفظات کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ اس معاملے کا ازخود نوٹس نہ لیتی تو 90روز میں انتخابات کرانے کی آئینی شرط کو کس طرح پورا کیا جاتا۔کیا حکومت نے کوئی ایسی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جو آئین شکنی کا جواز ہو سکے؟چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت سپیکرز کی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر ہیں اور عدالت سپیکر حضرات کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں۔پہلا سوال اسمبلی کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقا کی مشاورت اداروں کے احترام قانون و آئین کی پابندی اور تنازعات سے بچ کر ملک کو درپیش بحرانوں کے متعلق ہونی چاہیے۔صورتحال یہ ہے کہ دونوں صوبوں کے گورنر حضرات روایت کے مطابق انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اختیار نہیں رہا کہ انہوں نے اسمبلی تحلیل کے نوٹیفکیشن پر دستخط نہیں کئے تھے۔ دوسرا فریق الیکشن کمیشن ہے۔جب الیکشن کمیشن کو کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے تاریخ دینے کا اختیار نہ ہونے کا جواز پیش کیا۔ایسی صورت حال میں 90روز کے اندر انتخابات کرانے کی شرط کا پورا ہونا محال نظر آیا تو سربراہ ریاست کے طور پر صدر مملکت نے اپنا آئینی کردار ادا کیا۔صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے لئے طلب کیا جس پر الیکشن کمیشن نے معذرت کر لی۔ ایسی صورت میں آئین شکنی سے بچنے کا یہی طریقہ تھا کہ صدر خود تاریخ کا اعلان کر دیتے صدر علوی نے یہی فرض ادا کیا۔ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے صدر کے فیصلے کے خلاف ردعمل ظاہر کیا تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا۔ایک آئینی معاملے پر ازخود نوٹس لینا اور آئین کی تشریح کے لئے کردار ادا کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ قانون اور آئین کی پابندی کا حلف اٹھانے والے حکومتی اراکین سپریم کورٹ کے متعلق غیر مناسب انداز میں بیانات جاری کر رہے ہیں۔ان بیانات سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت معزز عدالت کو عدالتی بنچ کی تشکیل اپنی پسند ناپسند کے مطابق کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔یہ تاثر یا ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوئی کوشش قابل تعریف نہیں ہو گی۔حکومت پہلے یہ بہت سے معاملات غیر ضروری طور پر عدالتوں میں لا کر عام آدمی کے حق انصاف میں رکاوٹ پیدا کر چکی ہے۔ایک ایسا معاملہ جس نے پچھلے کئی ماہ سے ملک میں عدم استحکام پیدا کر رکھا ہے محض حکومت کی ضد کے باعث حتمی آئینی تشریح سے محروم اور متنازع نہیں رہنا چاہیے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here