برداشت اور عدم برداشت !!!

0
86
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

آج دنیا میں تحمل اور بردباری سے محرومی یعنی عدم برداشت ایک خطرناک رخ اختیار کرتی جارہی ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں دہشت گردی وحشت ناکی بڑھتی جارہی ہے کہیں مذہب کو بنیاد بنا کر کہیں سیاسی گروہ بندی کے حوالے تشدد اور مارکٹائی کا رحجان فروغ پا رہا ہے معمولی معمولی باتوں پر انسانی جانوں کا کٹ جانا عزتوں کی پامالی معمول بنتا جارہا ہے جس کی تازہ ترین مثال جڑانوالہ پاکستان کا واقعہ ہے۔ عیسائی حضرات خود برملا کہہ رہے ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے ہمیں بچانے کی بڑی کوشش کی مگر نجانے لوگ کہاں سے آگئے۔ بھارت میں چونکہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہو رہا ہے۔ ہوسکتا ہے را کے کچھ لوگوں نے کرائے کے قاتلوں کو ساتھ لے کر یہ حرکت کی ہو۔ تاکہ دنیا کی نگاہ بھارت سے ہٹا کر پاکستان کی طرف کرا دی جائے۔ اور پھر غیر ملکی این جی اوز اس کام کو مرچ مسالہ لگا کر خوب ہمدردی بھی سمیٹتے ہیں اور دنیا میں بدنامی بھی کرتے ہیں بہرحال یہ تو سکیورٹی اداروں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ اس کی تہہ تک پہنچیں کچھ ہمارے کاریگر عیسائی یورپ و امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لئے بھی ایسی حرکات کرتے ہیں عدم برداشت اور تشدد پسندی کے حوالے سے مذہبی حلقے آج سب سے زیادہ عدم برداشت کا شکار ہیں۔دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہوچکی ہے اپنے عقائد اپنے نظریات اپنے پیر صاحب اپنے مولوی صاحب کو دوسروں پر نافذ کرنا اپنا مذہبی حق سمجھتے ہیں عدم برداشت کا ایک اور بڑا سبب معاشی ناہمواری بھی ہے امیر امیر تر ہو رہا ہے اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ایک بچارے کو ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ہے اور دوسری طرف امیروں کے گھروں میں پالتو کتے بلیاں بھی موج کر رہے ہیں۔ محبت وپیار ہمدردی اور اثیار قصئہ ہارینہ بن چکا ہے اس کا حل صرف اور صرف سرکار دو عالم کی سیرت میں ہے جہاں سب سے پہلے قناعت کا سبق ملتا ہے اور پھر سبق ملتا ہے تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے سرکار دو عالم کی تعلیم میں ہمیں تحمل، برداشت، صلم وبردباری جیسی حسین اخلاقی صفات کا سبق ملتا ہے سرکار کا اپنا یہ حال تھا کہ مشہور یہودی عالم زید بن سعنہ آپ کی قوت برداشت کو دیکھ کر نہ صرف مسلمان ہوا بلکہ اپنا آدھا مال اسلام کی راہ میں صدقہ کردیا اور پھر خود بھی غزوہ تبوک میں شہید ہوگیا طائف والوں نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا مگر بددعا نہیں کی بلکہ دعا کی سو میرے بھائیو بچوں اگر برداشت کا حصول اور عدم برداشت سے بچنا ہے تو سرکار دو عالم کی سیرت کو اپنانا ہوگا۔ وگرنہ ہم لڑ لڑ کر یوں ہی مر جائیں گے داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here