ایسا صرف پاکستان جیسے ملک میں ہی ہو سکتا ہے جہاں کا صدر شکایت کرتا نظر آئے کہ اس نے ایک مجوزہ بل واپس بھجوانے کے احکامات جاری کیے اور اس کے عملے نے ان احکامات کو پس پردہ ڈال کر ان کے قانون بننے کی راہ ہموار کی۔تصور کیجئے کہ پاکستان میں صدر جیسے آئینی عہدے کاتقدس کس قدر مقدم رکھا جاتا ہے۔ویسے اس میں افسوس کی بات نہیں ہمارے صدر صاحب نے اپنے ہاتھ کاٹ کر اسی دن اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دیے تھے جس دن انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ کر واضح کر دیا تھا کہ یہ دونوں ہاتھ آپ کے سامنے کبھی ہلیں گے بھی نہیں مگر کیا کرے وہ زمانہ اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا تھا۔ تب صدر صاحب قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے قانون سازی کے لیے اجلاس بلائے جانے کا انتظار کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور آرڈیننس پر آرڈیننس جاری کر کے ایوان صدر کا نام آرڈیننس فیکٹری مشہور کروا دیا تھا۔آج جب اپنے کھودے ہوئے گڑھوں میں گرنے کہ امکانات نظر آرہے ہیں تو صدر صاحب کی سچائی گھنگرو توڑ کر ناچنے لگی ہے۔
صدر صاحب آپ نے تو اپنے اختیارات اس وقت ہی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر دیے تھے،،، جب نامزد چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے آپ نے کسی آئینی اور قانونی ماہر سے مشورہ کرنا گوارا نہ کیا، اگر اس وقت اپنے عہدے کا لحاظ کرتے ہوئے ان قانونی تقاضوں کو پورا کرتے رہتے تو آج اپ کو یہ دن بھی نہ دیکھنا پڑتے۔آج ایک ایسے قانون پر جس میں پاکستان تحریک انصاف کے عہدے داروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، اس پر آپ کا یہ بلند و بانگ دعویٰ کہ آپ نے دستخط نہیں کیے، اخلاقی لحاظ سے تقاضا کرتا کہ اپ یہ بھی سچ بولیں کہ کتنے آرڈیننس ایسے تھے جن پر اپ کے دستخط نہیں تھے، جن کی وجہ سے اپوزیشن کے رہنمائوں کو اس وقت راتوں رات اٹھا لیا جاتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ پاکستان کے ایوان صدر میں گزشتہ پانچ سالوں سے صدر نام کا کوئی آئینی عہدے دار موجود ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک مہرہ بیٹھا ہوا تھا۔جناب صدر مملکت آپ جیسے اپنی بے بسی کا رونا اس روتی ہوئی قوم کے سامنے روئے، اس سے غربت ،بے بسی اور مہنگائی کی ستائی عوام کی نم آنکھوں کومزید چار آنسو لگ گئے۔ جناب صدر مملکت ہم دعا گو ہیں کہ آپ جلد اس صدارتی قید سے آزاد ہو جائیں۔
٭٭٭