احتسابی نظام کی فعالیت اور نیب کی رپورٹ!!!

0
29

نیب کی حالیہ ریکوری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کے خلاف جاری مہم ایک ایسے نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اعداد و شمار بظاہر حوصلہ افزا ہیں مگر زمینی حقیقت میں الجھاو اور تضاد بھی دکھائی دیتا ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ قومی احتساب بیورو(نیب)نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران 547 ارب روپے سے زائد کی رقوم بازیاب کی ہیں، جن میں سے محض دوسری سہ ماہی (اپریل تا جون 2025)میں 456 ارب روپے کی تاریخی بازیابی شامل ہے۔ یہ کارکردگی گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں پانچ سو فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ دو برسوں میں نیب نے مجموعی طور پر 5.854 کھرب روپے کی ریکوری کا دعوی کیا ہے، جو ادارے کے قیام سے اب تک کی بازیابیوں کے مقابلے میں سات سو فیصد زیادہ ہے۔ اس دوران مختلف وفاقی و صوبائی اداروں کو جائیدادیں اور اثاثے واپس ملے، جن میں سی ڈی اے کو 29 ارب روپے کی زمین، این ایچ اے کو 25 ارب روپے مالیت کا رقبہ، سندھ محکمہ تعلیم کو 89 ارب روپے کی جائیداد اور محکمہ جنگلات کو 487 ارب روپے کی زمین شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سرکاری اثاثے لینے والے ہی نہیں ان پر قبضہ یا غلط الاٹمنٹ میں سہولت کاری کرنے والے اعلی حکام کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟یقینا نیب یہاں قانونی چونکہ چناچے کی تکرار کرنے لگے گا۔ نیب کے اعداد و شمار اپنی جگہ متاثر کن ہیں، لیکن ان کے پیچھے موجود سماجی اور انتظامی تصویر اتنی شفاف نہیں۔ پچھلے چند ہفتوں میں تقریبا روزانہ اربوں روپے کی لوٹ مار، مالی بے ضابطگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ سیالکوٹ کے اے ڈی سی آر کے معاملے سے لے کر پنجاب میں کھربوں روپے کی بے قاعدگیوں تک، اور مختلف سرکاری اداروں کے سربراہان کی جانب سے ذاتی فوائد کی آڑ میں عوامی وسائل کی خوردبرد تک، ایک مسلسل اور منظم بدعنوانی کا سلسلہ جاری دکھائی دیتا ہے۔ فنڈز کے استعمال میں عدم شفافیت اور نگرانی کے فقدان نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اصل تشویش اس بات پر ہے کہ ایسی اطلاعات کے باوجود قومی اداروں کی خاموشی ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر احتسابی ادارے ان تازہ انکشافات پر کسی بڑی کارروائی یا واضح موقف کے بغیر خاموش ہیں۔سیالکوٹ والے معاملے سے اندازہ لگائیں کہ وزیر اعلی کو اپنی ہی جماعت کے سینئر رہنما کی ناراضی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسے معاملات پر خاموشی صرف ادارہ جاتی غفلت نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی علامت ہے جہاں سیاسی دباو، مفاداتی گروہ بندی اور قانونی پیچیدگیاں احتساب کے عمل کو کمزور کرتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی رائے کو منظم کرنے اور بدعنوانی کے خلاف سماجی ردعمل پیدا کرنے میں رکاوٹیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ بدعنوانی محض مالی اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ یہ عوامی اعتماد، ریاستی ساکھ اور ترقیاتی اہداف پر براہ راست حملہ ہے۔ جب سرکاری ادارے اپنے وسائل کی حفاظت میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ناکامی صرف مالی نقصان تک محدود نہیں رہتی، بلکہ عوام کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ قانون اور انصاف صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ اس صورت میں شفافیت کی جگہ مایوسی، اور احتساب کی جگہ بے حسی لے لیتی ہے۔نیب کی جانب سے بڑی ریکوریز کی تشہیر اپنی جگہ ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ سوال بھی موجود ہے کہ کیا یہ رقوم مستقل طور پر محفوظ ہیں یا دوبارہ بدعنوان عناصر کے ہاتھ لگنے کا خدشہ باقی ہے؟ اصل امتحان صرف بازیابی کا نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی تشکیل کا ہے جس میں بدعنوانی کا دوبارہ پنپنا ممکن نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ریکوریز کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے ڈھانچے کو توڑا جائے، ان عناصر کو کڑی سزائیں دی جائیں جو عوامی اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں معیشت پہلے ہی دباو میں ہے، ہر لوٹا گیا روپیہصرف ایک ہندسہ نہیں بلکہ کسی ہسپتال، کسی سکول یا کسی سڑک کی تعمیر کے رک جانے کے مترادف ہے۔ عوامی وسائل کی لوٹ مار دراصل ترقی کے عمل پر ڈاکا ہے، اور یہ ڈاکا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک احتساب کا نظام مکمل، شفاف اور غیر جانبدار نہ ہو۔ اس کے لیے صرف نیب یا ایف آئی اے کی کارکردگی کافی نہیں، بلکہ عدلیہ، مقننہ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی یکساں طور پر متحرک ہونا ہوگا۔ بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کو وقتی مہم کے بجائے ایک مستقل ریاستی ترجیح بنایا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ایک طرف بدعنوانی میں ملوث عناصر کے خلاف فوری اور کڑی کارروائی ہو اور دوسری طرف عوام میں شعور پیدا کیا جائے کہ یہ لڑائی صرف حکومت یا اداروں کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ہے۔ عوامی رائے کی تشکیلاور دباو ہی وہ قوت ہے جو احتسابی اداروں کو فعال اور سیاسی مصلحتوں سے آزاد رکھ سکتی ہے۔ ریکوریز کے اعلانات اور اعداد و شمار کے شور میں یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ بدعنوانی کی جڑیں بدستور گہری ہیں۔ جب تک ان جڑوں کو کاٹا نہیں جاتا، کسی بھی بڑی بازیابی کا مطلب محض وقتی تسلی رہے گا۔ احتساب کے عمل کو سیاسی انتقام یا دکھاوے سے بالاتر ہو کر ایک قومی فریضے کے طور پر اپنانا ہوگا۔ اگر یہ جذبہ پیدا ہو جائے تو نہ صرف قومی خزانہ محفوظ ہوگا بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کی وہ کڑی بھی بحال ہو سکتی ہے جو بدعنوانی کے ہاتھوں ٹوٹتی جا رہی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here