قومی اسمبلی اجلاس ،اراکین نے حلف اٹھا لیا

0
45

اسلام آباد (پاکستان نیوز)طویل آئینی بحث کے بعد صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے طلب کیے گئے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران اراکین نے حلف اٹھا لیا ،سابق اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والا اجلاس صبح 10 بجے شروع ہونا تھا تاہم اجلاس مقررہ وقت کے ایک گھنٹے بعد شروع ہوا، اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور پھر نعت رسول مقبول پیش کی گئی۔اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے نو منتخب اراکین سے حلف لیا، حلف لینے والوں میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری، صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان، خورشید شاہ، سردار ایاز صادق اور دیگر نو منتخب اراکین شامل ہیں۔ تقریب حلف برداری کے بعد اراکین رجسٹر پر اپنے دستخط کر رہے ہیں۔تقریب حلف برداری کے بعد دوسرا مرحلہ اسمبلی کے نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا چناؤ ہو گا اور پھر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعظم کا انتخاب ہو گا۔موجودہ قومی اسمبلی 336 ارکان پر مشتمل ہے جس میں سے 266 نشستوں پر ارکان براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں جبکہ باقی ارکان مخصوص نشستوں پر ایوان کا حصہ بنتے ہیں۔وزیراعظم کے انتخاب کے لییکاغذات نامزدگی 3 مارچ کو جمع ہوں گے، 4 مارچ کو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی اور 4 مارچ کو ہی وزیر اعظم کا اپنے عہدے کیحلف لینے کا امکان ہے۔دریں اثنا صدر مملکت نے نگران وزیراعظم کی جانب سے بھجوائی جانے والی سمری میں نگران وزیر اعظم کے لہجے اور لگائے گئے الزامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نگران وزیراعظم کے لب و لہجے قابل افسوس قرار دیدیا ہے۔ایوان صدر سے جاری اعلامیے کے مطابق صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ صدر مملکت کو عام طور پر سمریوں میں ایسے مخاطب نہیں کیا جاتا، یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو نے صدر مملکت کو پہلے صیغے میں مخاطب کیا، صدر آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت ریاست کا سربراہ اور جمہوریہ کے اتحاد کی علامت ہے، بحیثیت صدر مملکت، نگران وزیراعظم کے جواب پر تحفظات ہیں۔ایوان صدر کے اعلامیے کے مطابق صدر مملکت نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی منظوری مخصوص نشستوں کے معاملے کے الیکشن کے 21 ویں دن تک حل کی توقع کے ساتھ دی ہے۔صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم نے سمری میں ناقابل قبول زبان استعمال کی اور بے بنیاد الزامات لگائے، صدر کی حیثیت میں اپنے حلف اور ذمہ داریوں کے مطابق ہمیشہ معروضیت اور غیر جانبداری کے اصولوں کو برقرار رکھا، صدر انتخابی عمل میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور حکومت قائم کرنے کے عمل سے غافل نہیں ہو سکتا۔ایوان صدر سے جاری اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ صدر کو قوم کی بہتری اور ہم آہنگی کیلئے قومی مفاد کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے، صدر کی جانب سے وزیراعظم کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق سمری آئین کے آرٹیکل 48 ایک کے عین مطابق واپس کی گئی، میرا مقصد آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اسمبلی کی تکمیل تھا، مگر میرے عمل کو جانبدار عمل کے طور پر لیا گیا۔صدر کا کہنا تھا کہ قرارداد مقاصد کے مطابق عوام کو اپنے ملک کے ایگزیکٹو فیصلوں میں حصہ لینے سے محروم نہیں کیا جا سکتا، صدر مملکت سمری کے کچھ پیراز میں لگائے گئے آئین کی خلاف ورزی کے الزامات پر وقت صرف نہیں کرنا چاہتے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ بات یاد دلانے کی بھی ضرورت نہیں کہ نگران وزیراعظم کی ذمہ داری محض آئین کے تحت اور وقت کے اندر پرامن، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، اس معاملے پر مختلف حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا ہے جبکہ مختلف کیسز کو چیلنج بھی کیا جا رہا ہے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی رائے اور مینڈیٹ کا سب احترام کریں۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے سمری 26 فروری کی رات کو موصول ہوئی، سمری میں وقت کی غلطی موجود ہے، وزیراعظم نے دوبارہ غور کرنے کیلئے سمری آئین کے آرٹیکل 48 ایک کے مطابق واپس نہیں کی، صدر کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ آئین پاکستان کو اس کے حرف اور روح کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے اگرچہ موجودہ انتخابی عمل میں ایسا نہیں کیا جا رہا۔اعلامیے کے مطابق صدر مملکت کا کہنا تھا کہ سمری کے پیرا 14 میں نگران وزیراعظم کی تجویز پر صدر مملکت اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 51 اور 91 دو پر سب کو عمل کرنا چاہیے اور اْن کی روح کے مطابق نافذ کیا جانا چاہیے۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کچھ دنوں سے الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت مشق کر رہا ہے، آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت ہونے والی مشق کو 21 دنوں میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا، تاہم ابھی تک الیکشن کمیشن اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔اعلامیے کے مطابق صدر عارف علوی کا کہنا تھا مینڈیٹ، آرٹیکل 51 دو میں دیے گئے وقت، مذکورہ تحفظات اور 21 ویں دن تک مخصوص نشستوں کے معاملے کے حل کی اْمید کے پیشِ نظر قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو طلب کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔شیڈول کے مطابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے ہیں ،عمومی طور پر ارکانِ اسمبلی کے حلف اٹھانے کے اگلے روز سپیکر کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہو رہا۔سپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب یکم مارچ کو ہوگا، سپیکر کے لیے، سردار ایاز صادق حکمران اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے عامر ڈوگر سپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔نومنتخب سپیکر کے حلف اٹھانے کے بعد ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوگا۔ یہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد، وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے کاغذات نامزدگی تین مارچ کو جمع کروائے جائیں گے جبکہ وزیر اعظم کا انتخاب چار مارچ کو ہوگا۔شہباز شریف کو دوسری بار وزیراعظم بننے کے لیے 169 ووٹ درکار ہیں جبکہ اس وقت مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کو 200 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here