واشنگٹن (پاکستان نیوز)دنیا کی بدنام زمانہ جیل گوانتا نامو بے میں قید پاکستانی قیدی نے نومنتخب صدر جو بائیڈن سے رہائی کی اپیل کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ میں تابوت میں نہیں بلکہ زندہ گھر واپس جانا چاہتا ہوں ، قیدی نے اپنے خط میں بتایا کہ جوبائیڈن نے رواں ہفتے امریکا کے 46ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جس نے اپنی ذاتی زندگی میں بھی کئی سانحات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے 1972ءمیں ایک حادثے میں اپنی بیوی اور بیٹی کی جدائی کا غم برداشت کیا اور بھر دماغی ٹیومر کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی وفات کا صدمہ اُٹھایا۔انہوں نے اپنی زندگی میں بے تحاشہ درد برداشت کیے ہیں اور مجھے امید ہے کہ وہ میرا درد بھی سمجھ سکیں گے۔ میری زندگی کے گزشتہ 2 عشرے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہیں، ایک ایسا خواب جس نے میرے خاندان کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔میں یہ الفاظ گوانتاناموبے سے لکھ رہا ہوں، میں صرف امید ہی کرسکتا ہوں کہ صدر بائیڈن مجھ سے اور اس خوفناک جیل میں قید دیگر قیدیوں کے ساتھ ہمدردی رکھیں گے۔مجھے 2002ءمیں کراچی سے اغوا کیا گیا اور مجھ پر حسن گل نامی دہشت گرد ہونے کا جھوٹا الزام عائد کرکے سی آئی اے کو فروخت کردیا گیا۔ اپنے اغوا سے کچھ ہی دن پہلے مجھے اور میری شریک حیات کو یہ خوشخبری ملی کہ ہمیں اولاد کی نعمت عطا ہونے والی ہے۔ میرے اغوا کے کچھ مہینے بعد میری بیوی نے ہمارے بیٹے جاوید کو جنم دیا لیکن مجھے آج تک اپنے بیٹے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔جو بائیڈن خاندان کی اہمیت کی بات کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے بیٹے کو کبھی نہ دیکھ پانے کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ میرا بیٹا بہت جلد 18 برس کا ہوجائے گا اور میں اس دوران اس کی رہنمائی کے لیے موجود نہیں ہوں گا۔صدر بائیڈن ایک بااختیار شخص ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے پر انصاف کا منتظر ہوں لیکن اس سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ میں کسی تابوت میں گھر نہیں جانا چاہتا۔ میں اپنے گھر اپنے خاندان کے پاس جانا چاہتا ہوں اور آخر کار پہلی دفعہ اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں۔