ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام؟ ظلم اور زیادتی کے خلاف ہر دور حکومت میں ہر طاقتور کے سامنے آواز حق بلند کرنا ہمارا ایمان ہے اور ہمارا منشور ہے۔ ہماری وفاداری حق اور انصاف کے ساتھ ہے لیکن اگر جھوٹ اور دھوکہ سچائی کی چادر پہن کر سامنے آئے تو اس دھوکہ میں کبھی نہیں آنا سچ اور جھوٹ کی تفریق کا فرق سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے۔ جھوٹ پر سوئے اور ادھر جڑ دو لیکن وہ جھوٹ ہی رہیگا لیکن سچ پر مٹی کی تہیں چڑھا دو تو بھی وہ چیخ چیخ کر کہے گا کہ میں سچ ہوں کیونکہ اس کی پرکھ کا ضامن ہمارے اندر میں موجود ضمیر ہوتا ہے۔ جو رب کی آواز ہوتی ہے قاتل گنہگار اور ظالم کے اندر بھی وہ آواز موجود ہوتی ہے فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ اس آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے آج کی تین خبروں نے دل دھلا دیا۔ انسانیت کو شرما دیا ہماری گردنیں ندامت سے جھک گئی ہیں، خبریں مندرجہ ذیل ہیں رقم کی کی جاتیں ہیں۔ جڑانوالہ میں مسیحی آبادی میں گھروں اورگرجا گھروں کو آگ لگانے کا شرمناک عمل ہے عالم اسلام کو شرما دیا نہایت رنج کا شکار ہے، پوری انسانیت بشمول مسلمان آبادی کے جبکہ ہمارے نبی آخر زماں نے تحریری وعدہ کیا تھا کہ اگر دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں کو میری اُمت کے لوگ گزند پہنچائیں گے تو انہیں میری اُمت سے خارج سمجھا جائے اور میں اس نقصان کا ذمہ دار ہونگا۔ میرے نبیۖ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ دوسرے مذاہب کو برا بھلا بھی نہیں کہو اس عمل کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس کی بھی سختی سے ممانعت کی گئی تھی، بہرحال ان تاریک لمحات میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسیٰ کا جڑانوالہ کا دورہ روشنی کی کرن بن کر ابھری نہ صرف ان کا دورہ بلکہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی موقعہ پر جاکر مسیحی بھائیوں کی اشق شوئی کا کام کیا ساتھ میں ہر جلائے جانے والے گھر کیلئے بیس لاکھ روپے کا اعلان کیا اور اس رقم کی فوری ادائیگی کا بھی حکم دیا۔ بارہ سالہ دوسری طرف کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ کے مقدمہ کی تحقیقات ابھی جاری تھی جس میں سول جج کی اہلیہ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ تو پھر ایک اہندوہناک خبر رانی پور سندھ سے آئی کہ 9سالہ فاطمہ کو پیر آف رانی پور کے کسی عزیز کے گھر سے مردہ حالت میں برآمد کیا ہے معصومہ بچی جس کے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ پیر کی بی وی جوکہ ایک انتہائی اذیت پسند عورت ہے جس نے پہلے بھی کئی ملازمین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا اب بھی اسی خاتون نے معصومہ فاطمہ برداشت نہ کرپائی اور بیہمانہ تشدد کے باعث جان سے جاتی رہی کچھ عناصر یہ الزام بھی لگا رہے ہیں کہ جوان سالہ پیر نے بھی اس معصومہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی لیکن تحقیقات سے یہ الزام ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے البتہ پیر کی بیوی کے متعلق تحقیقات میں پرانی ملازمائوں نے شواہد پیش کرتے ہوئے گواہی دی ہے کہ ایک ظالمانہ پیرنی نے ہمیشہ اپنے ملازمین پرتشدد اس طرح کیا ہے جیسا کہ لاوارثوں کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ ایسا رویہ تو جانوروں کے ساتھ نہیں روا رکھا جاتا ہے کہ جیسا اس پاک زمین پر کچھ انسان نما وحشیوں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنایا ہوا ہے یقین سے کہا جاسکتا ہے جب ان دو معصوم بچیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وبربریت کی داستان رقم کی جارہی ہے ان جیسی کئی رضوانہ اور فاطمائیں آج بھی اس ظلم کی چکی میں پسی جارہی ہیں اور اس وحشیانہ ظلم کو راہ میں فقطہ قوانین بنانے سے بھی رکاوٹ نہیں پیدا ہوسکتی ہے۔ بلکہ بچوں پر ظلم چاہے اپنے کریں یا پرائے سخت سزائوں کے قوانین بنا کر ان پر ایک وفاقی اور صوبائی سطح پر ایسی کمیشن بنائی جائے جو پاکستان میں ہر تحصیل کی سطح پر موجود ہو جس میں ایک ایسی فورس تشکیل دی جائے جو شکایت موصول ہونے پر ایک مجسٹریٹ کی سربراہی میں پہنچ کر ملزمان کو گرفتار کرکے جیل بھیج دے۔ سخت سزائوں کا استعمال قانونی تقاضے پورے کرکے ہونا چاہئے ورنہ ان سزائوں کا ناجائز استعمال ساری کاوشوں کو بے سود کردیگا۔ اب آتے ہیں تیسری خبر کی طرف جو کہ ایمان زینب مزاری انسانی حقوق کی تنظیم کی رکن اور وکالت سے تعلق رکھنے والی اور محترمہ شیریں مزاری حال ہی میں سیاست سے کنارہ کش ہونے والی تحریک انصاف کی ایک اہم رہنماء کی صاحبزادی ہیں۔ اگر ایمان مزاری نے جرم کیا ہے تو وارنٹ گرفتاری کے ساتھ پولیس ایک مجسٹریٹ کی موجودگی میں انہیں گرفتار کرسکتی تھی لیکن جو وحشیانہ طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ یاد رہے۔ کہ جس گھر کے دروازے توڑ کر ایمان مزاری کو گرفتار کیا گیا وہاں دو خواتین کے علاوہ کوئی مرد نہیں رہتا کیا اسلام آباد پولیس ایک بوڑھی اور ایک دبلی پتلی خواتین سے اسقدر خوف زدہ تھی کہ دروازے توڑ کر گھسنا پڑا بڑی افسوسناک بات ہے کہ یہ سب کچھ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگران وزیراعظم اور نگران وزیرداخلہ شاہ زین بگٹی کی حکومت میں ہوا۔ عام تاثر ہے کہ بلوچستان کے عمائدین خواتین کا بہت احترام کرتیں ہیں لیکن اس واقعہ نے ثابت کیا کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے یا ان صاحبان کے پاس عہدے تو ہیں اختیارات کوئی نہیں دونوں صورتوں میں یہ رویہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک ہیں!!!!۔
٭٭٭٭