”انڈے ،مرغی اور کٹے”

0
30
عامر بیگ

عمران خان نے جب اپنے دور حکومت میں اپنی غریب عوام کی بھلائی کے لیے انڈے مرغی اور کٹے دینے کا پروگرام بنایا تو اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت نے اس کی اتنی مخالفت کی کہ رہے نام اللہ کا ،بلاول بھٹو نے تو اپنے جلسوں میں اس کا مذاق بھی اُڑایا، اُسی طرح سے نون کی قیادت نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن پچھلے مہینوں میں پنجاب کی فارم سینتالیس کی فارمی وزیر اعلیٰ نے دیہاتوں میں لوگوں کو لائیو سٹاک دینے کا وعدہ کیا اور اس پر کہیں کہیں عمل بھی ہوا اور اب تیس سال بعد لاہور میں ہارس اینڈ کیٹل شو کا انعقاد بھی ہوا اس طرح کے شو زیادہ تر مال بنانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایسے شو منعقد ہوتے رہنے چاہئیں، میڈیسن میں آنے سے پہلے راقم کا تعلق لائیو سٹاک سے رہا ہے آج کل امریکہ میں انڈوں کی شدید قلت ہے وجہ انفلوائنزا کی وبا ہے ،اس پر اگلے کسی کالم میں تفصیل سے بات ہوگی ، امریکہ میں ابھی پچھلے چند ہفتوں میں17 ملین سے زائد انڈے دینے والی مرغیوں کی اموات ہوئی ہیں جو کہ ایک بڑی تعداد ہے یہ کمی اتنی آسانی سے پوری نہیں ہوگی مجھے یاد ہے کہ انیس سو ترانوے کے اوائل میں مابدولت لاہور کی ایک کمپنی بگ برڈ پولٹری کی ذیلی کمپنی گرینڈ پیرنٹ پولٹری بریڈر میں ان کے راجہ جنگ فارم میں اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر کام کرتا تھا میرا کام امریکہ سے آئے ہوئے گرینڈ پیرنٹ بریڈر کے ایک دن کے چوزے کو رسیو کرنا اور اس کی دیکھ بھال تھا وہ ایک دن کا چوزہ اس وقت ہمیں چودہ سو روپے میں پڑتا تھا پچیس ہفتے تک اس کی پرورش جو کہ ایک کنٹرول شیڈ میں ہوتی تھی جہاں اس کو منرل واٹر کے ساتھ اسپیشل خوراک مناسب دیکھ بھال ،ہر ہفتے ان کا وزن کرنا، مرغی کے بلڈ سیمپل لیکر ہالینڈ اور امریکہ کی لبارٹریوں سے تجزیہ کے لیے بھیجے جاتے اور رپورٹ آنے پر اس کی خوراک ،وٹامن اور ادویات میں تبدیلیاں کرنا شامل ہوتا تھا ،لاکھ سے اوپر کی تعداد میں مرغیوںکو ہینڈل کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا ،اس کے لیے لیبر کی ایک فوج ظفر موج درکار ہوتی تھی، امریکی کمپنی ہبرڈ کے گورے آ کر انسٹالیشن کرتے جنہیں مکمل سہولیات مہیا کی جاتیں۔ پچیس ہفتوں میں ایک مرغی پر پچیس سے تیس ہزار کا خرچہ اُٹھتا تھا تب جا کر یہ انڈے دینے کے قابل ہوتی تھیں، اس کے بعد یہ مرغی ایک سو پچیس ہفتوں تک انڈے دیتی تھیں جنہیں اکیس دنوں بعد ہچری چوزے بنا کر دوبارہ سے پیرینٹ فارم میں بھیج دیتی جہاں پھر پچیس ہفتوں تک ان کی پرورش ہوتی اور پھر پچیس ہفتوں بعد ان کے انڈوں سے برائلر مرغی کے چوزے اکیس دنوں بعد برائلر فارمنگ کے لیے بیچ دیئے جاتے اور وہ چھ ہفتوں میں عام پبلک کے کھانے کے لئے تیار ہو جاتے اب اس تمام پروسیس میں کتنی محنت کتنا سرمایہ اور مین پاور درکار ہوتی ہے اسکا اندازہ لگانے والے ہی جانتے ہیں اسی لیے پولٹری کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے ،اب دیکھیں ایک وبا اس بنی بنائی مرغی کا بیڑا غرق کر دیتی ہے کتنا نقصان ہوتا ہے محاورہ ہے گھر کی مرغی دال برابر لیکن اب گھر کی مرغی کے مر جانے سے انڈے نہ صرف مہنگے ہو گئے ہیں بلکہ نایاب بھی، اب یاد کریں خان نے مرغی انڈے اور کٹے دینے کا پروگرام کس وجہ سے بنایا تھا ،عمران خان کو یاد کریں جو کہتا تھا دو سو ارب ڈالرز کی حلال گوشت کی انٹرنیشنل انڈسٹری ہے جس میں ہمارہ حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے اس نے انڈے مرغی اور کٹے دینے کا پروگرام بناتے ہوئے کہا تھا یہ معیشت میں نمایاں بہتری کا باعث بنیں گے کہاں کہاں خان کو یاد کریں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here