امام خمینی مرحوم کی چند خصوصیات!!!

0
83
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

امام خمینی 3 جون 1989 میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر دار فنا سے دار بقاء کی طر روانہ ہوئے۔ میں ان کی شخصیت سے زمانہ طالب علمی ہی میں تھوڑا بہت واقف ہو گیا تھا۔ انقلاب سے ایک سال قبل اخبارات و ٹی وی کے ذریعے مزید تعارف ہوا۔ مجھے اس دور کے اخبارات اور ٹی وی کی خبریں آج تک فراموش نہیں ہوئیں۔ جن میں کبھی دکھایا جاتا کہ ایران کی نہتی عوام پر ٹینک چڑھائے جا رہے ہیں۔ گولیوں کی بارش ہو رہی ہے۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہو رہی ہے۔ لاٹھی چارج ہو رہا ہے۔ امام خمینی کے حمایتیوں کو سرعام ٹارچر کیا جا رہا ہوتا۔ پھر وہ شہ سرخی بھی د یکھی کہ بوریہ نشین مجتہداعظم پیرس سے اللہ کی ذات پر توکل کر کے تہران ایئرپورٹ پر جہاز سے اتر جاتا ہے۔ شاہ کی ایئرفورس سلامی دیتی ہے۔ شاہ فرار ہو چکا ہوتا ہے۔ وزیراعظم شاہپور بختیار کی حکومت میں یہ مرد مجاہد بہشت زہراء کے قبرستان میں حاضری دے کر ایک مقامی سکول کو اپنا ہیڈ کوارٹر بناتا ہے اور اپنے ہم وطنوں کو حکم دیتا ہے کہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے گھروں سے باہر نکل کر زمین کو ہلا دیں اور اپنی آہوں سے عرش کو لرزا دیں۔ شاہپور بختیار فرار ہو جاتا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر انقلابیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ فوج ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ جیلوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور ولایت فقہی کی حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ امام خمینی کی عہد ساز شخصیت کے چند پہلو اس تحریر میں سپرد قرطاس کرتا ہوں۔ نجف میں 13 سالہ قیام کے دوران ایک دن بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے روضہ مولائے کائنات پر 9 بجے شب حاضری نہ دی ہو۔ نجف میں ہی جب آپ کے بڑے فرزند آیت اللہ مصطفی خمینی کو شہید کر دیا جاتا ہے تو آپ شہید کی لاش پر چادر ڈال کر پہلے اپنا درس خارج پڑھاتے ہیں اور درس کے آخرمیں جنازے کا اعلان فرماتے ہیں۔ پیرس میں جلا وطنی کے دوران نماز جمعہ و جماعت کا باقاعدہ قیام فرماتے ہیں۔ جس جہاز پر آپ پیرس سے تہران روانہ ہوتے ہیں اس میں اپنی عباء بچھا کر نمازوں کو کھڑے ہو کر شرائط کیساتھ ادا فرماتے ہیں۔ جب آپ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ تہران کے ایئرپورٹ پر آپ کے جہاز کو توپوں سے اڑایا جا سکتا ہے تو فرماتے ہیں جب ہدف نیک ہو تو قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کی وجاہت اور رعب کا یہ حال ہوتا ہے کہ کوئی بھی شخص آپ سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر سکتا۔ جب پارلیمنٹ کے 72 ارکان بشمول اسپیکر آیت اللہ بہشتی شہید کر دیئے جاتے ہیں اور صدر اور وزیراعظم بم سے اُڑا دیئے جاتے ہیں تو دونوں موقع پر فرماتے ہیں دوست چلے گئے ہیں مگر خدا ہے۔(جاری ہے)
آپ معمولات حیات میں بہت ہی سادہ پائے گئے ہیں۔ سادہ غذا کھاتے، سادہ لباس پہنتے، مرتے دم تک کرایہ کے مکان میں رہے۔ وفات کے وقت ان کے اکائونٹ میں 1200 تومان تھے۔ اقتدار میں اپنے فرزند یا پوتوں، نواسوں کو شامل نہیں فرماتے۔ زندگی کے آخری دنوںمیں بھی جب کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی تو سہارا لے کر کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور اس کڑی حالت میں بھی مستحبات کو بھی ترک نہیں فرمایا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے اثاثوں میں سوائے جدی پشتی مکان کے کچھ نہیں ملتا۔ میں نے بیسیوں بار آپ کی زیارت کی۔ رعب اور دبدبہ کے باوجود انتہائی خوش اخلاق پایا۔ آپ خود سے چھوٹے لوگوں کو بھی تویا تم کی بجائے آپ کہہ کر پکارتے تھے۔ آپ اپنے مخالفین سے انتقام لینے کی بجائے ان کو انعام و اکرام سے نوازتے۔ آپ نے پچھلی صدی کے عظیم رہبر و رہنما ہونے کے باوجود طالبعلمانہ سادگی کو ترک نہ کیا۔ آپ بڑی سے بڑی مصیبت پر صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔ آپ سخت غصہ میں بھی اعتدال اور میانہ روی کو ترک نہیں فرماتے۔ آپ سیاسی مصروفیات کے باوجود مذہبی فرائض اور نوافل کو کبھی ترک نہ کرتے۔ آپ نے عمر بھر تلاوت قرآن، قیام الیل اور خدمت خلق کو کبھی ترک نہ کیا۔ جب آپ کے بیٹے علامہ احمد خمینی نے آپ کی تدفین کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے جب تک میں زندہ تھا اپنے بدن کا خیال رکھنا میری ذمہ داری تھی۔ جب روح نکل جائیگی تو اب تمہاری ذمہ داری ہوگی۔ اپنی صوابدید کے مطابق پوری کرنا۔ (جاری ہے)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here