ایسی بھی کوئی شب ہے!!!

0
33
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! میرے وطن عزیز میں گزرے ہفتوں پر محیط باتوں یادداشتوں اور ایک بڑے سفر کی کہانی باقی ہے جس کو میں ایک کالم میں مکمل کرنے سے قاصر ہوں سیاست پر تو لکھنا پڑھنا جاری رہے گا اور ویسے بھی جتنے منہ اتنے ہی اینکرز اور تجزیہ کاروں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اتنی بھیڑ گلہ منڈی میں نہیں ملے گی کہ جتنے ہاتھ اور منہ ہیں ،سیل فونز سب کے ملکان وی لاگرز بنے ہوئے ہیں ،مجھ کو بھی میرے عزیز دوست کہتے ہیں کہ سردار صاحب آپ بھی اپنا وی لاگ شروع کریں وہ کہتے ہیں کہ اب لکھا کوئی نہیں پڑھتا، میرا ان کو جواب ہوتا ہے کہ وی لاگرز کی جھرمٹ میں، میں ایسا کونسا نیا کرتب دکھائوں گا جو دوسرے نہیں دکھا رہے ،کسی نے خوب کہا کہ سنی باتوں کا کیا سننا، کہی باتوں کا کیا کہنا!بھائی اور خاص طور پر پاکستان کے وی لاگرز اور یو ٹیوبرز ایک ہی خبر کو لے کر چلیں گے اور اسی کو رپیٹ کرتے رہیں گے ان خبروں پر ایک جیسا تجزیہ پیش کریں گے ،سرخیاں سنسنی خیز جن کا اصل متن سے کوئی دور دور تک کا واسطہ نہیں ایسے میں بھی اسی قافلہ میں شریک ہوں جس کی نہ کوئی آواز جرس ہو ابھی لکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ،وی لاگ کے بارے بعد میں سوچتے ہیں ۔قارئین وطن! اس دفعہ ایک ایسے دوست کا تعارف کروانے کو دل کرتا ہے جس کے لئے احمد فراز نے خوب کہا!
ہاتھ گو ہر کسی سے ملتا ہے
دل ہے کہ ایک ہی سے ملتا ہے
یہ تم ہی تھے کہ مل گیا تم سے
ورنہ دل بھی کبھی کسی سے ملتا ہے
میرا یہ دوست میرا چھوٹا بھائی میرا بیٹا احتشام رفیق ملک ہے کچھ سال پہلے پرنس آف پرفیوم زاہد جدون صاحب نے نیو یارک میں ملاقات کروائی تھی بس پھر کیا تھا دل میں وہ ایسا اترا جیسے تیز دھار چھری ،خود بخود اپنی جگہ بناتا رہا میرے دل میں اس کے ساتھ دوستی کا سب سے بڑا فائیدہ کہ اس میں سیاسی بصیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس سے باتیں کر کے اسلام آباد کی چکا چوند سیاسی ماحول میں ہونے والی سرد اور گرم ہوا کا پتا چلتا رہتا ہے اس کا خلوص اور پیار ایسا ہے جیسے خشک حلق کو نبیذ کا قطرہ طر کرتا ہے میاں بیوی مہمان نواز کہ اسلام آباد تو ٹھیک ہے لاہور آئیں تو میرے مہمان ہونے کے بجائے میرے میزبان ہوتے ہیں کراچی گیا تو چار دن مون پک میں قیام کر وایا ،بڑے پیارے دوستوں سے ملوایا کہ خاص طور پر سحر سے اور شکیل سے تومل کر تڑپتی روح میں جان آگئی ،احتشام ایم بی اے ہے اور ٹیلی نور میں مارکیٹنگ جرنل مینیجر کی پوسٹ سنبھالے ہوئے ہے ،ہمارا کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ ہم واٹس اپ پر بات نہ کریں وہ بھی زور لگاتا رہتا ہے کہ سردار صاحب اپنا وی لاگ شروع کریں میں ہر طرح کی ٹیکنیکل مدر کروں گا ایسے پیارے دوست خال خال ملتے ہیں ان کو سنبھالنا پڑتا ہے اللہ ان کو بیگم صاحبہ اور تین بیٹوں کو خوشگوار صحت اور سلامتی والی زندگی عطا کرے آمین !
قارئین وطن!!آئیے اب تھوڑی سی سیاسی گفتگو کر لیں آہ فروری کو میں شام کو بہت رویا کہ دوپہر کو میں ووٹ پی ٹی آئی کے امیدوار سلمان اکرم راجہ ایڈوکیٹ کو دے کر آیا تھا اور پولنگ اسٹیشن پر پی ٹی آئی کے لئے جو جوش و خروش دیکھا دیدنی تھا لیکن رات کو جب رزلٹ آیا توعمرانی اور نوازی کو دودہ سپلائی کرنے والے کو فارم کے ذریعے اس کی جیت کا اعلان کر دیا گیا ملک میں ایک کہرام مچا ہوا تھا جس کو ہماری فوجی جنتا نے فارم والوں کے حق میں دبا دیا ، ملک دو ٹکڑے ہوا تھا، ملک ٹکڑوں میں بٹ گیا لیکن فروری کو نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو شرم آئی نہ ان کے بچونگڑوں کو صوابی کا جلسہ دیکھ کر اور ہر بڑے شہر میں بلکہ نہ صرف وطن عزیز کے اندر دنیا کے قریہ قریہ میں جہاں جہاں پاکستانی آباد ہے کہ عمران خان آج بھی اتنا ہی مقبول ہے جتنا فروری کو تھا ،پاک اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا چاہئے کہ اب بھی ان کے پاس وقت ہے لیکن بہت تھوڑا ہے کہ اپنی بچھائی ہوئی گندے چہروں کی اس بساط کو لپیٹ دینا چاہئے جس کو فارم 47کی حکومت کہتے ہیں، قوم پر احسان ہو گا ۔
قارئین وطن! ڈونلڈ ٹرمپ کا مزاج ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی مانند ہے اور اس کا زیادہ زور امیگرنٹس پر نکل رہا ہے وہ یہ بھول گیا کہ وہ بھی امیگرنٹ کی اولاد ہے اس کے والدین بھی ایک اچھے مستقبل کی تلاش میں آئیرلینڈ چھوڑ کر نیشن آف امیگرنٹس میں براجمان ہوئے اور ٹرمپ صاحب قدرت نے آپ کا ایسا نصیب لکھا کہ آپ امریکہ کے دو بار صدر متخب ہو گئے اور اب آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جنیوا تارکین وطن Rafugees کنونشن اور یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائیٹ کنونشن جو یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ کی رگِ جاں تھی کا خود ہی قتل کر دیا اور اپنے اپنے ملکوں کے جبر سے اور تعلیم کے حصول کے لئیے آنے والوں کا راستہ بند کر دیا اور وہی سلوک کرنا شروع کر دیا جو ان کے آباء ملک کر رہے ہیں اس صورت حال کو دیکھ کر میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو میرا مشورہ ہے کہ جب باکسنگ میں چاروں طرف سے بوچھاڑ ہو تو ہمیں سبق ملا کہ اپنے آپ کو ڈک Duck کرو انشاللہ یہ وقت بھی گزر جائے گا وہ کیا ہے!
طولِ غمِ حیات سے گھبرا نہ اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here