نیویارک (پاکستان نیوز)یہ بات شاید اب نئی نسل کو عجیب لگے کہ حالیہ دنوں میں مسلسل منفی خبروں کا شکار پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کبھی دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے ایک ایسا باعث فخر اثاثہ تھی جس نے نہ صرف دنیا کی کئی مشہور ایئرلائنز کی بنیادیں رکھیں بلکہ خود پاکستان میں کئی نئی روایات شروع کیں۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں پولٹری انڈسٹری کی بنیاد پی آئی اے نے رکھی۔ جی ہاں ساٹھ کی دہائی میں قومی ایئرلائن نے کینیڈا کی کمپنی شیور کے ساتھ مل کر پی آئی اے شیور پولٹری فارمز کی بنیاد رکھی۔ یہ پاکستان کا پہلا پولٹری فارم تھا جسے پی آئی اے نے اس لیے بنایا تاکہ اس کے جہازوں میں سفر کرنے والے مسافروں کو کھانے میں ایک سائز کے چکن پیس اور معیاری انڈے مل سکیں جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں تھے۔ اس وقت پولٹری کو صحت بخش اور پکانے میں آسان سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں آج بھی دیسی مرغی کے علاوہ مرغی کو شیور کی مرغی کہا جاتا ہے۔آج شدید مالی بحران کا شکار پی آئی اے نے اپنے ملازمین کو رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم (وی ایس ایس) کے ذریعے قبل از وقت ملازمت چھوڑنے کا آپشن دیا ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کے مطابق منگل 22 دسمبر کو اس سکیم کی آخری تاریخ ہے جس کے تحت منصوبہ ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد میں خاطر خواہ کمی لائی جائے مگر پی آئی اے ایک قابل فخر اثاثے سے ایک سفید ہاتھی میں کیسے تبدیل ہوئی یہ ایک افسوسناک داستان ہے۔پاکستان کی پرچم بردار ایئرلائن پی آئی اے یوں تو باضابطہ طور پر 1955 میں بطور کمرشل ایئرلائن وجود میں آئی مگر اس کی بنیاد بانی پاکستان محمد علی جناح نے 1946 میں ہی رکھ دی تھی جب انہوں نے ایک صنعت کار ایم اے اصفہانی کو ہدایت کی کہ وہ مستقبل کے پاکستان کے لیے ایک ایئرلائن بنائیں چنانچہ کلکتہ میں اورینٹ ایئرویز قائم کی گئی تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کو فضائی راستے سے جوڑا جا سکے۔ گو کہ اس ایئرلائن نے بھی ابتدائی چند برسوں میں خاصی ترقی کی اور چند نئے جہاز بھی اپنے بیڑے میں شامل کیے مگر پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق یہ پرائیویٹ ایئرلائن ایک نئے ملک کی ضروریات کے لیے کافی نہ تھی۔ اس لیے جنوری 1955 میں حکومت پاکستان نے پی آئی اے کے نام سے اپنی قومی ایئرلائن کی تشکیل کا فیصلہ کیا جس کے بعد اورینٹ ایئرلائن اپنے اثاثوں اور ملازمین سمیت اس میں ضم ہو گئی اور ایم اے اصفہانی پی آئی اے کے پہلے چیئرمین بن گئے۔اسی سال پی آئی اے نے برطانوی دارالحکومت لندن کے لیے براستہ روم اور قاہرہ پراوزوں کا سلسلہ شروع کیا اور چند برسوں میں ہی پی آئی اے بین الاقوامی روٹس سے منافع کمانا شروع ہو گئی لیکن پی آئی اے نے بطور کمپنی صحیح ا±ڑان اس وقت بھرنا شروع کی جب 1959 میں ایئر کموڈور نور خان کو اس کا مینجنگ ڈائریکٹر لگایا گیا۔نور خان کی قیادت میں یہ ایئرلائن دنیا کی صف اول کی ہوائی جہاز کمپنوں میں شمار ہونا شروع ہو گئی۔ ان کا دور پی آئی اے کی تاریخ میں ’سنہرے دور‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران پی آئی اے نے جہازوں کی مرمت کے لیے کراچی میں ہی انجینئرنگ سروس شروع کی جس سے خطے کی دوسری ایئرلائنز بھی مستفید ہوتی تھیں۔ 1960 میں پی آئی اے جیٹ طیارہ بوئنگ 707 آپریٹ کرنے والی براعظم ایشیا کی پہلی ایئرلائن بن گئی۔ پہلی جیٹ پرواز لندن، کراچی، ڈھاکہ کے درمیان تھی۔ اگلے سال پی آئی اے کی سروس نیویارک پہنچ گئی۔ چند برسوں میں پی آئی اے نے مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کر دی جو صوبے کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے ملاتی تھی۔ اس سروس سے پہلے سال میں ہی 70 ہزار مسافر مستفید ہوئے۔1962 میں پی آئی اے کے پائلٹ کیپٹن عبداللہ بیگ نے لندن سے کراچی جیٹ طیارہ چھ گھنٹے، 43 منٹ اور 51 سیکنڈ میں لا کر تیز رفتار پرواز کا ریکارڈ قائم کیا جو پاکستان کے لیے اپنی نوعیت کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ اسی طرح اپریل 1964 میں پی آئی اے نان کمیونسٹ دنیا کی پہلی ایئرلائن بن گئی جس کے طیارے نے چین میں لینڈ کیا۔60 کی دہائی میں ہی پی آئی اے کے جہازوں کے نئے فلیٹ اور ماڈرن عملے نے دنیا بھر کی نئی ایئرلائنز کو اس جانب متوجہ کیا۔ سعودی عرب، سنگاپور، جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے پی آئی اے کو تربیت یافتہ عملے یا جہازوں کی فراہمی کی درخواست کی گئی جس سے پاکستان کا امیج مزید بہتر ہوا۔70 کی دہائی میں پی آئی اے کے جہاز اور انجینئرنگ کی سہولیات یوگوسلاویہ، مالٹا، شمالی کوریا اور چین تک کو مہیا کی گئیں۔ 1976 میں پی آئی اے کی آمدنی 13 کروڑ ڈالر سے زائد تھی۔ اس زمانے میں پی آئی اے سو سے زیادہ روٹس پر پروازیں چلاتی تھی۔پی آئی اے کے سابق چیف ایگزیکٹیو آفیسر مشرف رسول بھی کہتے ہیں کہ ایئرلائن کے ماضی کو زیادہ ہی ’عظیم‘ دکھایا گیا ہے جس کے بوجھ کے باعث ایئرلائن اب بھی دباو¿ سے باہر نہیں نکل سکتی اور نہ اس ’بلندی‘ کو واپس چ±ھو سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق پی آئی اے ستر کی دہائی کے آخر تک بہتر کارکردگی دکھاتی رہی۔ مگر اسی کی دہائی میں جب مقابلہ بڑھ گیا اور خطے کی دیگر ایئر لائنز نے بہتر سروس کے ساتھ مارکیٹ کا شیئر حاصل کرنا شروع کیا تو پی آئی اے بدلتے حالات کا ادراک نہ کر سکی اور پیچھے رہ گئی۔ حتیٰ کہ 1985 میں جس ایمرٹس ایئر لائن کو لانچ کرنے کے لیے پی آئی اے نے جہاز اور عملہ فراہم کیا تھا آج وہ دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں شمار ہوتی ہے جبکہ پی آئی اے اس وقت 480 ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہر سال خسارے میں اضافہ کر رہی ہے۔اس سال کراچی پی آئی اے حادثہ، پائلٹوں کے جعلی لائسنسوں اور سیفٹی سسٹم کی شکایات پر یورپی ممالک کی جانب سے لگنے والی پابندی کے بعد تو ایئر لائن صرف چند ممالک اور اندرون ملک پروازوں تک محدود رہ گئی ہے۔ پی آئی اے کے سابق سربراہ اعجاز ہارون کے مطابق اس وقت ادارے کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں ہے جو یہ نہیں جانتے کہ کمرشل ایئرلائن کیسے چلائی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں موجودہ انتظامیہ کی پوری ٹیم ایئرفورس کے بیک گرو¿انڈ کی وجہ سے اس تجربے کی حامل نہیں جو کمرشل ایئرلائن چلانے اور اسے منافع بخش بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔دریں اثنا نیویارک کے مرکز میں واقع تاریخی روز ویلٹ ہوٹل کو بھی 94 سال بعد بند کر دیا گیا ہے ، کہا جا رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہوٹل خسارے میں تھا۔روزویلٹ ہوٹل انتظامیہ نے نیویارک کے حکام کو ہوٹل کی بندش سے آگاہ کر دیا ہے۔ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد ہوٹل خسارے میں چل رہا تھا۔ ہوٹل بند ہونے سے چار سو اکتیس افراد نوکریوں سے محروم ہو گئے ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق ہوٹل کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا اعلان رواں ماہ مارچ میں ہوا تھا۔ خیال رہے کہ کورونا کے باعث ہوٹل انڈسٹری سے منسلک 75 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے۔ 1025 کمروں پر مشتمل ہوٹل پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی ملکیت ہے۔