سقوط ڈھاکہ !!!
سقوط ڈھاکہ پاکستانیوں کیلئے وہ سبق آموز واقعہ ہے جوکہ رہتی دنیا تک انہیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرتا رہے گا، زبان سے ”سقوط ڈھاکہ” کا لفظ ادا کرنا بہت آسان ہے لیکن اس واقعہ کا چشم دید گواہ بننا بہت خوفناک تجربہ تھا ،سالوں کا اتحاد لمحوں اور دنوں میں پارہ پارہ ہو گیا ، دیکھتے ہی دیکھتے ہماری آزاد، خوشیوں سے بھرپور زندگی قید، صعوبتوں،مایوسیوں میں گھر گئی تھی، میں نے اپنی فیملی کے ساتھ دن رات چار سال تک ”کرمی ٹولا کیمپ ”میں زندگی گزاری ، جہاں ہم نے زندہ رہنے کیلئے گھاس اور پتے کھائے ، ہر روز ہم یہ سوچ کر رات کو سوتے تھے کہ ہماری صبح شاید نہ ہو ،اس طرح چار سال گزرے، پھر ریڈ کراس نے تھوڑا بہت راشن دینا شروع کیا،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب پاکستانی فوج چاروں طرف سے گھر چکی تھی اور شکست یقینی تھی ،ایسے موقع پر بہاری قوم اور جماعت اسلامی نے اعلانیہ پاکستانیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، نہ صرف اعلان کیا بلکہ عملی میدان میں کر کے بھی دکھایا ،بھارتی فوج لاکھ کوشش کے باوجود بہاری اور جماعت اسلامی کے اکثریتی علاقوں میر پور اور محمد پور میں داخل نہیں ہو سکی تھی۔
پاکستان کی آزادی سے ہی مشرقی اور مغربی پاکستان میں زمینی فاصلہ رویوں میں تبدیلی کی بڑی وجہ رہا ہے ، اور بھارت نے اس صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں حصوں کے تعلق پر ایسی تلوار چلائی کہ دونوں حصے دو ملکو ں کی شکل اختیار کر گئے ، جب 25 اور 26 مارچ 1971 کی درمیانی شب پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا، تو یہ وہ لمحہ تھا جب بنگلہ دیش کی علیحدگی کی جنگ صحیح معنوں میں شروع ہوئی اور نو ماہ تک جاری رہنے کے بعد بنگلہ دیش کی آزادی پر ختم ہوئی لیکن بنگلہ دیش کے علیحدگی پسندوں کے گروہوں کی مدد کرنے کے لیے انڈیا کی فوج بھی تین دسمبر کو پاکستان کے خلاف جنگ میں شامل ہو گئی اور مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کے فوجی دستوں میں پیش قدمی شروع کی اور انڈین فضائیہ نے ہوائی حملوں کا بھی آغاز کر دیا۔ پاکستانی فوج کو آگے اور پیچھے دو دشمنوں کا سامنا تھا ، سامنے سے بھارتی فوج خود برسرپیکار تھی جبکہ پیچھے سے مکتی باہنی کے تربیت یافتہ جنگجو پاکستانی فوج کو گھیرے ہوئے تھے ایسی صورتحال میں دفاع ناممکن ہو گیا تھا ایک ہی صورت تھی کہ پاکستان کے 93ہزار فوجی آخری گولی تک لڑتے شہید ہوجاتے یا پھر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ، جنرل نیازی نے اس وقت صورتحال کو بھانپتے ہوئے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو مناسب سمجھا اور یوں پاکستان دو لخت ہو گیاجس کا ذمہ دار پاک فوج کو ہی قرار دیا جاتا ہے ، اس وقت بھی ملک میں جمہوریت مکمل بحال نہیں تھی ، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ کردار نے حکومت وقت کی کبھی بھی نہیں چلنے دی ، جنرل ٹکا خان نے بنگلہ دیش میں پاکستان کا سکہ ہمیشہ قائم رکھا ،بھارتی سازشوں کو ناکام بنایا لیکن اس کے باوجود ان کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور جنرل نیازی کے آتے ہی صورتحال اچانک تبدیل ہوگئی۔مشرقی پاکستان جہاں ملک کی 56 فیصد آبادی رہائش پذیر تھی جو کہ بنگلہ زبان بولنے والے تھے جبکہ مغربی پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو اور دیگر مقامی زبانیں بولنے والے بستے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا سے ہجرت کرنے والے مسلمان تھے جو اردو بولنے والے تھے اور آبادی میں ان کا تناسب تین فیصد تھا،اگر حکومت پاکستان کا خیال تھا کہ اگرتلہ سازش کیس کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا، تو یہ اس کی بھول تھی۔ نہ صرف ان کے حق میں مشرقی پاکستان میں بھرپور آواز بلند ہوئی بلکہ وہ اس خطے کے سب سے اہم اور سب سے مقبول لیڈر بن کر ابھرے اور انھیں ‘بنگہ بندھو’ یعنی ‘بنگال کے دوست’ کا خطاب ملا۔پاکستان کے نئے آمر، جنرل یحییٰ خان کی حکومت میں 1970 کے انتخابات منعقد ہوئے تو ان کی پارٹی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 160 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کر لی لیکن اسے حکومت بنانے کا موقع نہیں مل سکااگر پاکستان میں جمہوریت ہوتی تو اکثریتی پارٹی اپنی حکومت قائم کرتی اور نوبت کبھی علیحدگی تک نہ پہنچتی تو لیکن بات فوج اور اسٹیبلشمنٹ پر ہی آ کر ختم ہوتی ہے کہ اگر فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنے کام سے کام رکھے تو پاکستان نہ صرف ترقی کرے بلکہ جمہوری طور پر سرگرم ممالک میں نام بھی پیدا کرے ، اب ہماری فوج کو یہ سوچنا ہوگا کہ کیا وہ اسی طرح ملکی، حکومتی اور جمہوری معاملات میں مداخلت کی اپنی روش پر برقرار رہے گی یا پھر اس برائے نام جمہوری ملک کو صیح معنوں میںاپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع فراہم کریگی۔
٭٭٭