جی 20اجلاس کتنا کامیاب ثابت ہوا!!!

0
189
مجیب ایس لودھی

بھارت میں ہونے والے جی 20 اجلاس سے جہاں اس کی مارکیٹ ویلیو میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے وہیں اس کے عالمی تشخص پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ، جی20 کی کامیابی میں بھارتی حکومت کی سخت محنت بھی کارفرما تھی ، مودی نے جی 20 کے سربراہ کے طور پر عالمی منظر نامہ پر اپنا قد اونچا کرنے اور آئندہ سال ملک میں ہونے والے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے سخت محنت کی تھی۔ وہ کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ روس کی مذمت کے امریکی منصوبہ کو روک کر بھارت نے عالمی سفارت کاری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔دوسری طرف بھارتی کامیابی کو اس حوالے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ممالک کے پاس یوکرین کے سوال پر کسی مفاہمت کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ امریکہ اگر روس کی مذمت پر اصرار کرتا تو روس بھی ایسی کسی کوشش کو ناکام بنانے کا اعلان کرچکا تھا۔ روس اور چین کی اس گروپ میں موجودگی کی وجہ سے کوئی ایسا اعلامیہ منظور کرنا غیر فطری ہوتا جس میں ایک رکن ملک کی مذمت کی جاتی۔ دریں حالات مغربی ممالک یا تو یوکرین جنگ پر سخت موقف اختیار کر کے جی 20 جیسے اہم پلیٹ فارم کو کمزور کرنے اور عالمی میڈیا میں اس کا مذاق بنوانے کا خطرہ مول لیتے یا اس مفاہمتی فارمولے پر اتفاق کیا جاتا جو بھارت کے علاوہ برازیل اور دیگر ممالک کی کاوشوں سے تیار کیا گیا تھا۔اجلاس سے پہلے طویل مذاکراتی عمل میں ایک متوازن قرار داد پر اتفاق کر لیا گیا تھا جس کے بارے میں میزبان وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس کے افتتاحی اجلاس میں اعلان بھی کر دیا تھا۔ جی 20 ممالک کے سربراہان کی منظور کردہ قرار داد میں براہ راست روس یا یوکرین کا ذکر نہیں ہے لیکن یہ کہا گیا ہے کہ دوسرے ممالک کے علاقوں پر قبضہ کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ اجلاس میں صدر پوتن کی جگہ روس کی نمائندگی کرنے والے وزیر خارجہ سرگی لاروف نے بھارت کو اس قرارداد کا کریڈٹ دیا اور کہا کہ بھارتی قیادت نے حقیقی معنوں میں اس کانفرنس کو گلوبل ساوتھ کا نمائندہ بنا دیا ہے۔ یہ اصطلاح دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے۔روسی نمائندوں کے خیال میں امریکی کوششوں کے باوجود جی 20 سربراہی اجلاس میں یوکرین جنگ کی مذمت نہیں کی گئی۔ روس اسے اپنی سفارتی کامیابی سمجھتا ہے۔ البتہ فرانس کے صدر مینوئیل میکرون کا کہنا ہے کہ کانفرنس کے اعلامیہ سے واضح ہو گیا ہے کہ روس عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔ اجلاس میں اگرچہ یوکرین جنگ کی مذمت نہیں کی گئی لیکن اسے اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ فورم عالمی اقتصادی معاملات طے کرنے کے لئے قائم ہوا تھا۔ اس میں یوکرین جیسے سفارتی امور طے نہیں ہوسکتے۔ اس لئے اجلاس کی قرار داد کسی طور سے روس کی کامیابی نہیں ہے۔ اسے اس پر فخر نہیں ہونا چاہیے۔جی 20 سربراہی اجلاس اگرچہ اہم عالمی معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے اور ترقی پذیر معیشتوں کے ساتھ تعاون و اشتراک عمل بہتر بنانے کے مقصد سے منعقد ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ اجلاس میں یوکرین جنگ پر روس کی مذمت اہم ترین موضوع تھا جس پر اجلاس سے کئی ماہ پہلے سے کام شروع کر دیا گیا تھا۔ امریکہ کسی بھی طرح جی 20 اجلاس میں روس کی مذمت کروا کے روس کی سفارتی تنہائی اور عالمی سطح پر اس کی ہزیمت میں اضافہ کرنا چاہتا تھا جبکہ روس بہر صورت اس ناخوشگوار صورت سے بچنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیہ سے دونوں مطمئن ہیں اور اسے اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ ہفتہ کو جاری ہونے والے جی 20 لیڈروں کے اعلامیہ میں روس کی مذمت سے گریز کیا گیا ہے البتہ تمام ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر دوسرے ممالک کے علاقے پر قبضہ نہ کریں۔ اعلامیہ میں جنگ سے عام شہریوں پر مرتب ہونے والے اثرات و مصائب کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔روس و یوکرین کے حوالے سے تنازعہ کے علاوہ اس کانفرنس کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سیاسی و سفارتی کامیابی کے لئے استعمال کیا۔ نئی دہلی کو اس مقصد کے لئے خاص طور سے سجایا گیا تھا اور کثیر وسائل صرف کر کے عالمی رہنماوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کوششوں میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پیش کرنے کا طریقہ بھی شامل تھا۔ مودی کسی حد تک اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ میزبان ملک کے طور پر اگر یوکرین جنگ کے سوال پر کوئی اتفاق رائے نہ ہوتا تو اسے بلاشبہ بھارت اور مودی کی ناکامی سے تعبیر کیا جاتا۔ نریندر مودی اس شرمندگی سے بچ گئے اور اب روس و امریکہ سے یکساں طور پر اپنی سفارتی چابکدستی کی داد وصول کر رہے ہیں۔ یہ کامیابی بلاشبہ آئندہ سال بھارتی انتخابات میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے معاون ہوگی کیوں کہ اس بار انہیں 26 اپوزیشن پارٹیوں کے الائنس انڈیا سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ اس کے باوجود تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی ایک بار پھر ہندوستان کے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن اس کا امکان ہے کہ لوک سبھا میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی نمائندگی کم ہو جائے اور مودی کو آئندہ مدت کے دوران میں جارحانہ کی بجائے مفاہمانہ رویہ اختیار کرنا پڑے۔جی 20 سربراہی کانفرنس میں سرکاری نام انڈیا کی بجائے بھارت کو ہندوستان کے نام کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی سربراہی میں بھارتی وفد کی میز پر بھارت کی نیم پلیٹ رکھی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھارتی صدر دروپدی مورمو کی طرف سے کانفرنس کے رہنماوں کو ضیافت کی جو دعوت دی گئی تھی اس میں بھی انڈیا کی بجائے بھارت ہی کا نام استعمال کیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا نام کو نوآبادیاتی ورثہ سمجھ کر مسترد کرتی ہے اور بھارت کو ملک کا سرکاری نام قرار دینے کے اشارے دیتی رہی ہے۔ جی 20 اجلاس میں غیر سرکاری طور سے بھارت کو ملک کے نام کے طور پر استعمال کرنے کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ حکومت جلد ہی لوک سبھا میں انڈیا نام کو تبدیل کر کے بھارت قرار دینے کا فیصلہ کروا لے گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی کی طرف سے خاص طور سے اس وقت ملک کا نام تبدیل کر کے بھارت رکھنے کو یوں بھی اہمیت حاصل ہے کیوں کہ دو درجن سے زائد اپوزیشن پارٹیوں نے جو انتخابی اتحاد قائم کیا ہے، اس کا نام انڈیا رکھا گیا ہے۔ بھارت کو ملک کا سرکاری نام قرار دے کر مودی انتخابی مہم کے دوران میں اپوزیشن اتحاد کے نام انڈیا کو غلامانہ ذہنیت قرار دینے کی کوشش کریں گے۔بھارت کی داخلی سیاست کے علاوہ عالمی سطح پر اس سفارتی کامیابی سے نریندر مودی نے خود کو قومی ہی نہیں اہم عالمی لیڈر منوانے کی کوشش کی ہے اور وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ دوسری طرف جی 20 سربراہی اجلاس میں چین اور روس کے صدور نے شرکت نہیں کی جس سے اس اجلاس کی اہمیت بھی کم ہوئی ہے اور علاقائی اور عالمی سطح پر ممالک کی صف بندی اور تنازعات کی صورت حال بھی نمایاں ہوئی ہے۔ یہ درحقیقت بھارت ہی نہیں بلکہ جی 20 ممالک کے سب سربراہان کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ جی 20 جیسے فورم اہم مسائل پر عالمی طاقتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے قائم کیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر بعض ممالک ایسے فورمز کو اپنی برتری اور مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے اجلاس ہی نہیں بلکہ اس قسم کے فورم کی اہمیت و افادیت کے بارے میں سوال ضرور سامنے آتے ہیں۔اسی طرح امریکہ کی سربراہی میں نئے مواصلاتی منصوبہ کو سی پیک کو دفن کرنے کے مماثل قرار دینے والے نہ عالمی سیاست و سفارت کو سمجھتے ہیں اور نہ وہ معاشیات کی حرکیات سے آگاہ ہیں۔ یہ منصوبہ ابھی تو محض بات چیت ہی کی حد تک ہے لیکن اگر تیس چالیس سال میں اس کی کوئی شکل سامنے آتی ہے تو یہ سی پیک یا ون بیلٹ ون روڈ کا مدمقابل نہیں بلکہ معاون ثابت ہو گا۔ البتہ اس حوالے سے سامنے آنے والی یہ پریشانی جائز و درست ہے کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت ترقی کے سفر میں ہم سے کوسوں آگے ہے اور ہم عالمی اداروں اور دوست ممالک سے قرض لے کر قومی اخراجات پورے کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں، وہ ہماری داخلی ناکامیوں کا ثمر ہیں۔ ان سے نجات پانے کے لیے ہمیں قومی سطح کر مل جل کر کام کرنا ہو گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here