شاعرِ ہفت زباں!!!

0
60
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ڈاکٹر مقصود جعفری کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو محبت، رواداری، خلوص، انسان دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔ مقصود جعفری عہدِ حاضر کے دانشور ، محقق ، شاعر، ادیب اور کالم نگار ہیں۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور ایک سے زائد زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ منفرد اور معتدل سوچ کے مالک ہونے کے ساتھ ایسے تخلیق کار ہیں جنہیں یہ تخلیق کی نعمت اپنے والد جناب سرفراز حسین المعروف تحسین جعفری مرحوم سے ورثے میں ملی ہے۔ آپ ایک ایسے خاندان کے چشم و چراغ ہیں کہ جن کی شرافت ، نجابت ، فہم و فراست اور ادبی مہمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ آپ گورڈن کالج راولپنڈی میں انگریزی ادبیات کے پروفیسر رہے ہیں۔ امریکا سے انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی اور فلسفہ میں ڈی فِل کی ڈگری حاصل کی اور امریکا میں کئی یونیورسٹیوں میں تقابلی عالمی ادبیات پر لیکچر دیے ۔ آپ کی اس وقت تک انگریزی، فارسی اور اردو زبان میں شاعری ، فلسفہ، سیاسیات ، اسلام ، علامہ اقبال ، کشمیر ، عالمی سیاسیات اورعالمی ادبیات پر 32 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ علم و ادب کے علاوہ آپ نے سیاست میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ آپ وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان کے مشیر اور وزیرِ اعظم پاکستان محترمہ بینظیر کے پولیٹیکل ریسرچ سیل کے انچارج اور مشیر بھی رہے۔ آپ ایک عالمی سطح کے دانشور ہیں۔ آپ گزشتہ چار دہائیوں سے اردو ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز اردو شاعری کی تصنیف متاع درد سے کیا جو نومبر 1971 کو ایس ٹی پرنٹرز راولپنڈی سے شائع ہوئی۔ بعدازاں مقصود جعفری نے نہ صرف اردو شاعری بلکہ فارسی، پنجابی، کشمیری اور انگریزی شاعر کی تقریبا ڈیڑھ درجن تصانیف لکھیں اور مزید لکھ بھی رہے ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے نثری نگارشات میں بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں جو مذہب، فلسفہ، سیاسیات اور کشمیر کے موضوع پر ہیں۔ان کی مطبوعہ تصانیف کی کل تعداد بتیس ہے اور حال ہی میں ایک نئی کتاب بعنوان ” روزن دیوار زنداں ” جولائی 2021 میں شائع ہوئی ہے۔ اگر عہدِ حاضر میں انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کی جائے تو مقصود جعفری ایک نمائندہ شاعر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ مقصود جعفری کی شاعری وقتی، عارضی، صحافتی اور احتجاجی نوعیت کی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی رومانوی شاعری جو عام طور پر شعرا کو عوام میں مشہور اور ہر دلعزیز بنا دیتی ہے۔ان کی شاعری ایک آفاقی پیغام، پیام محبت اور پیام انسانیت کی حامل ہے۔ایسی شاعری جس میں انسانی تہذیب، انسانی اقدار، انسانی حقوق اور انسانیت کا درد موجود ہو تو وہ شاعری مرتی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سایہ دار تناور درخت کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔انہوں نے جا بجا اپنی شاعری میں غزل اور نظم کی صورت میں انسانی حقوق کی بہترین عکاسی کی ہے:
مقامِ آدمیت سے اگرچہ میں نہیں واقف
مگر آدم کی خاطر آدمی کا ساتھ دیتا ہوں
خدارا اس طرح سے خونِ انساں مت بہا تم
میں انساں دوست ہوں میں آشتی کا ساتھ دیتاہوں
ڈاکٹر مقصود جعفری اپنے منفرد موضوعات، اسلوب اور لہجے کی انفرادیت کے باعث ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں انسانی حقوق ،عصری شعور ، عشقیہ جذبات، ظلم و جابر قوتوں کے خلاف احتجاج و مزاحمت ، جاگیرداری نظام اور اہلِ زور و زر کے اقتدار کے خلاف کڑی تنقید ملتی ہے۔انھوں نے شاعری کے مخصوص موضوعات تک خود محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے عہد کی اس مجموعی صورت ِحال سے سروکار رکھا ،جسے عصری شعور سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔ انھوں نے اپنے منفرد شعری اسلوب کی بدولت معاشرتی موضوعات اور مسائل کو شعری قالب میں اس طرح ڈھالا کہ اس میں پورے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتی ہے۔۔
مقصود جعفری کی شاعری آفاقی پیغام لیے ہوئے ہے۔ ان کی شاعری کسی خاص مذہب ، قوم یا طبقے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی مخاطب پوری انسانیت ہے ۔شاعری میں ایسا کمال چند لوگوں کے حصے میں آتا ہے ۔ آپ غم ِجاناں سے نکل کر غم ِدوراں کی بات کرتے ہیں۔ بلا رنگ و نسل انسانیت کی بھلائی کے لیے کوشاں ہیں اور ذات پات کا لحاظ کیے بغیر انسانی مساوات کا سبق پڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور مقصود جعفری مذہبِ انسانیت کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ مذہب کو نفاق کے بجائے اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ رواداری کی علامت سمجھتے ہیں۔آپ کا کلام آفاقی اور ہر دور کے لیے موزوں ہے۔ مقصود جعفری مذہب و ملت، ملک وقوم، رنگ ونسل اور زبان سے بالاتر ہوکر انسانیت کا عالمگیر اور ہمہ گیر ایسا فلسفہ پیش کرتے ہیں کہ جس کی دورِ حاضر میں بہت زیادہ ضرورت ہے۔انسانیت اور انسان دوستی، مذہبی رواداری اور دوسروں کے فکرونظریے اور مذہب کااحترام، دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کے لیے برداشت اور وسعت ایک عصری تقاضا ہونے کے باعث مقصود جعفری ہمیں اس بنیادی نکتے کا درس دیتے ہیں:
رنگ ونسب کے فتنے کچھ اس طرح سے جاگے
خوں ریز دست انساں اب کے کہاں نہیں ہے
مذہب کی نفرتوں نے دنیا بنا دی دوزخ
دنیا میں اب کہیں بھی جائے اماں نہیں ہے
ہر انسان اپنے معاشرے میں ایک مقام رکھتا ہے اور اس معاشرے کی اصلاح اور بہتری میں اپنا کردارادا کر سکتا ہے۔معاشرے کے اندر لوگوں کی تربیت اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی بلندی، مذہبی رواداری اور سماجی معاملات کی درستگی کے لیے مخلوق میں بلاتفریق محبت کے پھول نچھاور کرنا مقصود جعفری کا اصل پیغام ہے۔مقصود جعفری انسانیت کی بنیاد پر سب کو ہمدردی اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔مقصود جعفری کی حق گوئی، سچائی اور انسانیت کے درس نے تمام مفاد پرست حلقوں کو جو مذہب کو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، کو مخالف بنا دیا ہے لیکن پھر بھی مقصود جعفری نے ان کی پرواہ نہیں کی اور لوگوں میں محبت کی خوشبو پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے اور ان میں رواداری، مذہبی ہم آہنگی، بردباری اور برداشت کے موتی بکھیرتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقتوں کی زمیں نہیں یہ طلسم گاہِ خیال ہے
میں سفیرِ خطہ امن ہوں میرا اس پہ جینا محال ہے
نہ دلوں میں زخمِ وفا رہا نہ لبوں پہ حرفِ دعا رہا
جو رہا تو مکر و دغا رہا میرا عہد عہدِ زوال ہے
مقصود جعفری کی شاعری میں انسانیت کا پیغام بھی ہے اور محنت کشوں کے حقوق کا ذکر بھی، غربت اور غریب کی بے بسی کا ماتم بھی ہے اور غلامی کے خلاف جہاد کا درس بھی۔آپ کی شاعری ایک انقلابی شاعری ہے جو فطرت کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ملک کی ترقی ، اصلاحِ معاشرہ اور انقلابی قوتوں کی آبیاری مقصود جعفری کا دل پسند مشغلہ ہے لیکن ان کے لیے وہ وطن کے نوجوانوں پر ہی انحصار کرتے ہیں کیونکہ قوم کے نوجوان ہی اس میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔آپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ سیاسی غلامی ، سماجی ناانصافی ، اقتصادی پسماندگی، تمدنی گراوٹ اور باہمی دشمنی دور ہو اور ان کی جگہ مساوات، آزادی، محبت اور وحدت لے لیں۔آپ ایک نئے منصفانہ سماج کی تعمیر چاہتے ہیں جس میں انسان صحیح معنوں میں انسان بن جائے:
مجھ سے کرو نہ واعظ دیر وحرم کی باتیں
میں کر رہا ہوں تم سے انساں کے غم کی باتیں
مقصود جعفری انسانوں کو انسانیت سکھاتے ہیں اور ان کو گمراہی سے بچانا چاہتے ہیں۔پسماندہ لوگ ایسے شاعر کو پسند کرتے ہیں جو ان کی پسماندگی کی تعریف کرے لیکن مقصود جعفری اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔انہیں بار بار ایسی باتیں کہنا پڑیں جو عوام کے جذبات، خیالات اور عقائد سے ٹکراتی ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ جھجکتے وہ اپنی باتوں کو میٹھی زبان میں ادا کرتے ہیں پھر جو ایک مرتبہ ان کے بلند خیالات سمجھ جائے تو ان کی شاعری پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔درحقیقت کوئی بھی ذی شعور انسان مقصود جعفری کی نظموں اور غزلوں کو کسی طرح نظر انداز نہیں کرسکتا۔مقصود جعفری کو یقینِ کامل ہے کہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب ان کا پیغام رنگ لائے گا اور وطن میں آزادی، مساوات، اخوت، ترقی وخوشحالی اور اتحاد و یگانگت کا دور دورہ ہوگا۔
تجھ کو خبر ہے اے مرے پروردگار کچھ
کیا کیا ستم ہوئے ہیں یہاں آدمی کے ساتھ
کہتے ہیں لوگ شاعرِ انسانیت مجھے
دو چار روز تم بھی رہو جعفری کے ساتھ
مقصود جعفری کی شاعری محبت، رواداری، خلوص، انسان دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر سامنے آتی ہے اور ہر درد مند و غمزدہ کے دکھ اور پریشانی کو محسوس کرکے ان کی مظلومیت اور محرومی کی آواز بن جاتی ہے:
مسلک کا میرے نام ہے انسان دوستی
انساں ہوں مجھ کو جعفری انساں سے پیار ہے
مقصود جعفری کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں جو آپ کے حقیقی ” شاعرِ انسانیت ” ہونے کی واضح دلیل ہے:
میں تو میانِ خلق ہی رہتا ہوں روز وشب
مانوس کیسے کرتی یہ رہبانیت مجھے
انساں کا درد رکھتا ہوں مقصود جعفری
کہتے ہیں لوگ شاعرِ انسانیت مجھے
ڈاکٹر مقصود جعفری کی شاعری پڑھ کر اور سمجھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ انسانیت کے درمیان زبان، نسل، علاقے اور مذہبی جماعتوں کے قائل نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے آفاقی نظریے کے تحت معاشرے کی تشکیل اور فلاح چاہتے ہیں۔آپ کی شاعری مخلوق خدا سے انس ومحبت، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے، رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت کے رشتے کی بات کرتی ہے۔
مقصود جعفری ایک سدا بہار شاعر اور مفکر ہیں جس کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کبھی کم نہیں ہوگی۔آپ کی شاعری نے دلوں میں انسانیت کی تخم ریزی کی۔یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور محبتوں کے رنگ بکھیرنے کے لیے آج مقصود جعفری کے کلام سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔۔
جناب مقصود جعفری کی حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے ایک خوبصورت احساسات بھری تازہ غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
اب قافلہ نہ قافلہ سالار دیکھنا
اپنی صفوں میں کون ہے غدار دیکھنا
سورج نکل چکا تھا، مگر روشنی نہ تھی
اک حادثہ ہے دن میں شبِ تار دیکھنا
لب بستہ لوگ بیٹھے ہیں پیشِ یزیدِ وقت
میرے لبوں پہ جراتِ اظہار دیکھنا
” آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں”
وجداں پہ میرے بارشِ انوار دیکھنا
دیکھا ہے تو نے خنجرِ ابروئے مہ رخاں
اب تو گلوئے عشق پہ تلوار دیکھنا
یہ پھول ہی تو زینتِ گلشن نہیں فقط
خارِ چمن میں رونقِ گلزار دیکھنا
مانا کہ رشکِ غنچ نو رستہ ہیں وہ لب
اس کے لبوں پہ شوخء گفتار دیکھنا
باتیں تو لوگ دین کی کرتے ہیں روز و شب
ہے کون اِن میں صاحبِ کردار دیکھنا
دامن دریدہ لوگ جو زنداں میں قید ہیں
قدموں میں اِن کے طر طرار دیکھنا
کیا پھر کسی نے عیسی کو مصلوب کر دیا ؟
دزدیدہ سی نظر سے سرِ دار دیکھنا
غارت گرِ چمن ہی شریکِ چمن رہے
لوٹی ہے کس نے پھولوں کی مہکار دیکھنا
نوکِ سناں پہ دیکھنا رقصِ سرِ قتیل
یہ معجزہ بھی بر سرِ بازار دیکھنا
کب تک لہو غریب کا پیتے رہو گے تم؟
مقتل میں اب کے لاش زردار دیکھنا
منصف جہاں پہ بِکتے ہوں مقصود جعفری
مشکل وہاں ہے حرمتِ دستار دیکھنا
تصانیف
گنبدِ افلاک (شعری مجموعہ/ 2018)
شعلہِ کشمیر (اردو شاعری)
گوشہ قفس (اردو شاعری)
نخل آرزو (اردو شاعری)
میخانہ (اردو شاعری)
متاع درد (اردو شاعری)
اوج دار (اردو شاعری)
آواز عصر (اردو شاعری)
جبر مسلسل (اردو شاعری)
چراغ افکار (اردو نثر)
جام وفا (فارسی شاعری)
آتش غزل (فارسی شاعری)
حلقہ زنجیر (فارسی شاعری)
اڈیکاں (پنجابی شاعری)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here