دو شوہروں میں بیوی حرام !!!

0
57
رمضان رانا
رمضان رانا

کل جب عدالت میں بشریٰ بی بی کے سابقہ اور موجودہ شوہروں میں عدت میں حدت پوری نہ کرنے پر تلخ کلامی ہوئی کہ آپ نے میرا گھر برباد کیا ہے جو میری بیوی کو بھگا کر لے گیا تو پورے پاکستانی معاشرے میں پہلی مرتبہ ہل چل مچی کہ اب امراء کی بھی بیویاں بھاگنے لگی ہیں ورنہ صرف غریبوں کی بچیوں پر الزامات لگائے جاتے ہیں کہ فلاں کی بچی فلاں کے ساتھ بھاگ گئی ہے جس پر شوہروں سمیت بچیوں کو مار دیا جاتا ہے مگر امرا صرف زبانی کلامی غصے اور ناراضگی ظاہر کرتے رہے ہیں یہ واقعہ تب آیا جب عدالت نے عدت میں مدت پوری نہ کرنے پر موجودہ شوہر عمران خان اور بیوی بشریٰ بی بی کو سات سات سال سزا سنائی ہے کہ دونوں نے قصدا اسلامی شریعت کے مطابق طلاق ہونے کے بعد90دن کے بعد شادی نہیں کی ہے۔ جس کا ثبوت وہ نکاح نامہ ہے جس پر مفتی سعید اور دونوں خاوند اور بیوی کے علاوہ دو گواہوں کے دستخط ہیں جس کا اقرار نکاح خواہ مفتی سعید نے بھی کیا کہ مجھے طلاق کا مئوقف غلط بتایا گیا جس پر میں نے نکاح پڑھایا تھا جس پر میں نے کہا کہ آپ کا نکاح فاسد ہوچکا ہے آپ دوبارہ نوے دن پورے ہونے پر نکاح کریں جو ہوا کہ نکاح دوبارہ فروری میں پڑھایا گیا۔ جس کے بعد ثابت ہوا کہ فروری سے پہلے میاں بیوی میں نکاح نہ ہونے پر دونوں کا ملاپ گناہ کبیرا تھا جو زنا کاری میں آتا ہے جس کی سزا سنگساری ہے۔ یہ وہ مقدمہ ہے جو پہلے کسی عام شخص نے دائر کیا تھا تو اسے تسلیم نہ کیا گیا۔ مگر جب شرابی کے سابقہ شوہر نے مقدمہ دائر کیا تو اس کی باقاعدہ سماعت ہوئی جس میں عدالت نے عدت میں مدت پوری نہ کرنے پر سزا دی ہے۔ جس کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دو شوہروں میں بیوی حرام ہوچکی ہے کہ سابقہ شوہر نہیں اپنی سابقہ بیوی کو نہیں مل سکتا ہے۔ اور موجودہ شوہر کا بھی بیوی کا ملاپ جرم ثابت ہوا چونکہ جوڑے کا تعلق اعلیٰ کلاس سے ہے لہٰذا اس پر اب تک کسی مولوی کا فتویٰ تک نہیں آیا ہے۔ جو غریبوں کی بچیوں پر فتوے جاری کرتے نظر آتے ہیں جن کے ہاتھ میں ہمیشہ پتھر ہوتے ہیں جو غریبوں کی بچیوں کو سنگساری کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم اخلاقیات کا درس ہمیں امریکہ جیسی جدید ریاست سے ملتا ہے کہ جس میں جنس پرستی کی آزادی کے باوجود غیر اخلاقی اعمال اور کردار پر بڑے بڑے سیاستدان، نمائندگان، عہدیداران اور اہلکار جنس پرستی پر بری طرح متاثر ہوتے ہیں کہ جن کے دہائیوں کی کارکردگی صرف بدفعلی پر ضائع ہوجاتی ہے۔ وہ چاہے امریکی صدر بل کلنٹن، نیویارک کا گورنر کو، سینٹر آل فرینکلن، اٹارنی جنرل ایرک، کانگریس میں انتھونی ویئر، جج تھامس، ہو یا پھر ایسے لاتعداد لوگ ہیں جو جنس پرستی کے شکار ہوچکے ہیں۔نہ کسی نے کسی خاتون کے گالوں پر ہاتھ لگایا تو تیس برس بعد بھی جواب دہ ہوئے ۔تاہم عدت میں مدث ایک شرعی مسئلہ ہے جس کا ذکر قرآن میں دیا گیا کہ اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو اس عورت کو چار ماہ دس دن تک شادی کرنا منع ہے تاکہ کسی قسم کے حمل کا علم ہوپائے اگر کسی عورت کو شوہر سے طلاق ہو جائے تو عورت کو 90دن تک شادی کرنا منع ہے تاکہ ان کے تین حیض جوعموماً ہر ماہ آتے ہیں جس کی مدت90دن دی گئی ہے۔ جوکہ اسلام میں دنیا کا بہترین طریقہ کار دیاگیا ہے تاکہ حاملہ عورت کے بچے کو متنازعہ نہ بنایا جائے کہ یہ بچہ کس شوہر کا ہے علاوہ ازیں شریعت کے مطابق طلاق شدہ یا بیوہ حاملہ عورت تب تک شادی نہیں کرتی ہیں جب تک بچہ پیدا نہ ہوجائے تاکہ وہ بچہ اپنے سابقہ شوہر کی جائیداد کا مالک بن پائے جو آج کی جدید ریاستوں کے قوانین سے کہیں بہتر ہے اور غیر متنازعہ پایا جاتا ہے کہ جبکہ مغربی دنیا میں عورت طلاق کے دوسرے دن شادی کرتی ہے تو وہ اسی دوران کسی بچے کو جنم دیتی ہے تو وہ بچہ متنازعہ بن جاتا ہے تو بچہ کس کا ہے مزید برآں پاکستان میں عمران خان کی عدت میں مدت پوری نہ ہونے پر ان کے مریدوں نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی ایک عمر رسیدہ ہے ان کے ہاں بچہ کہاں سے پیدا ہونا ہے وہ بالکل غلط ہیںدنیا میں انہیں عورتوں کو بچے ساٹھ سال کی عمر میں پیدا ہوئے ہیں ورنہ پچاس سال کی عمر میں اکثر وبیشتر بچوں کی پیدائش کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس لیے شرعی عمل کہ عدت میں مدت کا وقفہ 90دن صحیح رکھا گیا ہے۔ جو ایسے موقع پر بچے کو متنازعہ بنا کر مظلومیت کا شکار کرنے کے مترادف ہے اس لئے اسی طرح عمل کیا جائے جس طرح عمران خان اور بشری بی بی کی شادی کو کالعدم قرار دے کر شرعی اور دنیاوی مسئلے کو حل کیا گیا ہے کہ آئینہ کوئی بھی اعلیٰ کلاس کے لوگ مذہبی شرعی روایات کا مذاق نہ اڑائیں جس سے شہریوں میں نفرقات اور تضادات پیدا ہوتے ہیں کاش پاکستان کا قانون بھی مساوی ہو تو ملکی معاشرہ بہتر ہوجائے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here