واشنگٹن( پاکستان نیوز) امریکی انٹیلی جنس ادارے ایف بی آئی کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر (NCTC) کے پرنسپل ڈپٹی ڈائریکٹر کیون آر بروک نے کہا ہے کہ جب کوئی سیاست دان جو تقریباً نصف صدی سے سینٹ میں رہے کہتا ہے کہ ایف بی آئی بنیادی طور پر کرپٹ ادارہ ہے اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے جمہوری اداروں میں سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے کس سے رجوع کریں تاکہ ہم میکسیکو نہ بن جائیں، جہاں انصاف نہیں ملتا بلکہ مجرمانہ کارٹیلس نے پوری حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سینیٹر چک گراسلے یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ ایف بی آئی کا ادارہ بدعنوان اور اس قوم کے لیے تباہ کن ہوتا جا رہا ہے جہاں قانون کی بجائے من پسند فیصلے لیے جاتے ہیں۔ ایف بی آئی میں نظامی بدعنوانی کا کوئی بھی دعویٰ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کیا جانا چاہئے سینٹر گراسلے کا یہ الزام کہ ایف بی آئی صدر بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کی کرپشن کے کیسیز کو بند کر رہی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارہ اپنی قدر کھو چکا ہے۔ سینٹر گراسلے نے اس ادارے کی بدعنوانی کے بارے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ اور FBI کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کو خطوط بھیجے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس “وسل بلور” معلومات ہیں کہ ایف بی آئی نے ہنٹر بائیڈن کے بارے میں کرپشن کیسز پر جان بوجھ کر انکوائری نہیں کی اور یہ کہ ایف بی آئی کے دو ملازمین نے خاص طور پر تحقیقات کو ناکام بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ اگر سینیٹر گراسلے کی کچھ باتیں درست ثابت ہو جاتی ہیں تو یہ ادارہ اپنی قدر کھو دے گا۔ عوامی دباو بھی بڑھ رہا ہے کہ ایف بی آئی بائیڈن حکومت کے پریشر میں ہے ، ہنٹر بائیڈن کے لیپ ٹاپ سے ملنے والی معلومات کافی ہیں کہ ان کو قانون توڑنے کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ عوامی سطح پر سامنے آنے والے حقائق بتاتے ہیں کہ ہنٹر بائیڈن اور ان کا خاندان تحقیقات کا مستحق ہے لیکن اسکی انکوائری سیاسی بیان بازی کی بجائے انصاف کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔