فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
91

محترم قارئین! مرتضیٰ شیرحق، شجمع الاشجعین
۔باپ فضل ولایت پہ لاکھوں سلام !
شیر شمشیر زن، شاہ خیبر شکن
پر تو دست قدرت پہ لاکھوں سلام
فاتح خیبر، علی حیدر اسد اللہ الغالب کا اسم گرامی علی ابن ابی طالب اور کنیت”ابوالحسن” و ”ابوتراب” ہے۔ آپ حضورۖ کے چچا کے فرزندارجمند ہیں اور آپ کی والدہ کا نام نامی اسم گرامی ”فاطمہ بنت اسد بن ہاشم” ہے۔ آپ سابقین اولین اور علماء ربانیتین میں انتہائی مکرم ومعظم اور مہاجرین اولین اور عشرہ مبشرہ میں اپنے درجات کے لحاظ سے بہت زیادہ ممتاز اور اعلیٰ واکرم ہیں۔ آپ حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنھا کے شوہر نادرار اور حسنین کریمین کے پدر بزرگوار، حیدر کرارو صاحب ذوالفقار ہیں اور شجاعت وسخاوت میں مشہور خلائق ویگانہ روزگار ہیں۔ اس طرح زہد واتقاء اور عبادت وریاضت میں بھی سید الخیار اور سند الابرار ہیں، فصاحت وبلاغت اور موعظة وخطابت میں عدیم النظیر، علم وحلم میں بھی بے مثال، غرض ہر میدان میں فضل وکمال کے شہسوار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قیامت تک تمام دنیا آپ کو ”مظہر العجائب والغرائب اسد اللہ الغالب علی بن ابی طالب” کہہ کر پکارتی اور یاد کرتی رہے گی۔ آپ خلفاء راشدین میں سے خلیفہ چہارم جانشین سید عالمۖ ہیں۔30عام الفیل جبکہ حضورۖ کی عمر30سال کی تھی تب تیرہ رجب المرجب کو جمعہ کے دن آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ بھی ایک بڑی خاص خصوصیت ہے کہ آپ رسول اللہۖ کے چچا زاد بھائی ہونے کے علاوہ ”عقدمواخاة” میں بھی آپ کے بھائی ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہۖ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان میں”بھائی چارہ” کرایا تو ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا بھائی بنایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آبدیدہ ہو کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ”یارسول اللہ ۖ ” آپ نے تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔ مگر میں یوں ہی رہ گیا اور آپ نے مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا تو رسول خدا ۖ نے نہایت ہی پیار اور محبت سے فرمایا: اے علی تو دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو علماء صحابہ کرام علیھم الرضوان میں علمی عظمت کے اعتبار سے آپ کا مرتبہ بہت ہی بلند ہے آپ نے نبی کریمۖ سے پانچ سو چھیاسی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور آپ کے فتاویٰ اور فیصلوں کا انمول مجموعہ اسلامی علوم کے خزانوں کا بہترین قیمتی سرمایہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہم تمام صحابہ کرام علیھم الرضوان میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اور کبھی یوں بھی دعا مانگتے تھے کہ میں ایسے مقدمہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جس کا فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی نہ کرسکیں۔ اسی طرح آپ کے بارے میں حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی ایسا صاحب علم نہیں تھا کہ جو یہ کہہ سکے کہ جسکو جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لے۔ اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باوجود اپنے علم وفضل کے اعلانیہ کہا کرتے تھے۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ فرائض کا جاننے والا معاملہ فہم کوئی شخص بھی نہیں تھا ۔ غزاوت اور جہادوں میں آپ کی شجاعت اور بہادری کے کارنامے بے شمار ہیں جنگ تبوک کے سوا تمام غزوات میں آپ حاضر رہے اور کفار کے بڑے بڑے بہادروں کو دست بدست جنگ میں اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جنگ بدر میں ولید بن عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ جیسے بہادروں کو قتل کیا جنگ اُحد میں ایسی جانبازی کے ساتھ کفار کے نرغے میں لڑتے رہے کہ سوزخم آپ کے بدن مبارک پر لگے۔ مگر اس حال میں بھی ذوالفقار چلائے رہے۔ جنگ خندق میں عمروبن عبدود جو ایک ہزار بہادروں کے برابر مانا جاتا تھا۔ آپ نے اس کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ اس کی کھوپڑی کو کاٹتی ہوئی جبڑے تک پیوست ہوگئی۔عمر وبن عبدود کے بعد ضرار اور جبیرہ آگے بڑھے۔ لیکن جب ذوالفقار کا ہاتھ بڑھا تو یہ دونوں سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔نوفل بھی کفار کا بڑا بہادر شہسوار تھا۔ مگر یہ بھی ذوالفقار کی مار دیکھ کر فرار ہوگیا اور بھاگتے ہوئے خندق میں گر پڑا۔ بہرحال شہنشاہ ولایت، سید الاصفیاء حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کا یہ عالم ہے کہ قرآن مجید کی بہت سی آیات کی شان میں نازل ہوئیں اور آپ کے فضائل میں احادیث کا ایک ذخیرہ موجود ہے ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمۖ نے جناب علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: ”علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں” اسی طرح مسلم شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ میں اس ذات کی قسم کھاتا ہوں کہ جس نے دانے کو پھاڑ کر اگایا اور جس نے روح کو پیدا کیا کہ مجھے نبی عربیۖ نے یہ بتایا کہ مجھے سے ایماندار محبت رکھیں گے اور منافق بغض رکھیں گے۔21رمضان میں آپ نے جام شہادت نوش فرمایا، آپ کی نماز جنازے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور نجف اشرف میں آپ کا مزار پر انوار ہے۔ آپ کی خلافت کی مدت تقریباً چار برس آٹھ ماہ اور نو دن ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کے فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here