کپتان کا عزم آخری جنگ!!!

0
105
جاوید رانا

ہفتہ رفتہ نہایت ہنگام کا مظہر رہا، ایک جانب پاکستان کی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کے حوالے سے قوم کا جذبہ عروج پر رہا، دوسری طرف عمران خان کے حقیقی آزادی کے بیانیئے کا جوش و خروش اور عوامی سپورٹ کی نئی تاریخ بنتی نظر آئی۔ لاہور میں ہونیوالے جلسے اور کپتان کے خطاب کو تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، ہم صرف اتنا ہی عرض کرینگے کہ لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم کی وسعت مینار پاکستان سے کہیں زیادہ ہے، مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کا یہ جلسہ شہید بھٹو اور بی بی شہید کے ریکارڈ جلسوں کو بہت پیچھے چھوڑ گیا۔ یہ تو لاہور کی بات ہے لیکن اس کیساتھ ہی اس جلسے کے ناظرین کی تعداد پاکستان کے تمام شہروں کراچی سے خیبر اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان تک لاکھوں بلکہ ملینز میں رہی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ یہاں شکاگو میں جشن آزادی کی پریڈ اور آزادی میلہ کی تقریب میں بھی کپتان کے شیدائی قومی پرچم کیساتھ پی ٹی آئی کے پرچم بھی لہراتے رہے۔ ہماری یادداشت کے مطابق غالباً یہ پہلا موقعہ تھا کہ خالصتاً آزادی کی تقاریب میں کسی سیاسی پارٹی کے پرچم نظر آئے۔ اس تمام تر تناظر کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مخالفین اور فیصلہ سازوں کی تمام تر کوششوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود عمران خان کا بیانیہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور کوئی بھی سازش کپتان کے عزم و مقبولیت کے آگے نہ ٹھہر سکے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لیڈر بغیر حکومتی وسائل، ذرائع آمد و رفت اور کسی بھی مادی منفعت کی فراہمی کے لالچ کے بغیر بھرپور عوامی حمایت اور سپورٹ کا حامل ہو، مضبوط بیانیہ رکھتا ہو، اسے ریشہ دوانیوں، بے بنیاد الزام تراشی و رکاوٹوں سے گرایا جا سکے یا سیاسی ایرینا سے نکالا جا سکے؟ ایسا مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن ہی ہے۔ مائنس ون کا گھسا پٹا فارمولا آج کل پھر گردش میں ہے۔ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو تک اور بعد ازاں بھی یہ فارمولا آزمایا گیا لیکن ان لوگوں یا ان کی پارٹیوں کو ختم یا بھلایانہ جا سکا، آج بھی ان قائدین کے حوالے سے ان کا سیاسی ووٹ بینک موجود ہے۔ عمران خان وطن عزیز کی تاریخ کا مقبول ترین لیڈر بن کر سامنے آیا ہے اور اقتدار سے سازشی محرومی کے بعد اس کی مقبولیت صرف پاکستان ہی نہیں ساری دنیا میں موجود پاکستانی عوام و خواص میں ایک تاریخ رقم کر رہی ہے، ابتدائی سطور میں یوم پاکستان کے حوالے سے ہمارا حوالہ اس کی بین شہادت ہے۔ عمران خان کیخلاف توشہ خانہ، ممنوعہ فنڈنگ، شہباز گِل کے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بیان اور پاداش میں گرفتاری، شہباز گِل کے ڈرائیور کی بیوی کی گرفتاری اور دس ماہ کی بچی سے جدائی، اے آر وائی کے لائسنس کی منسوخی اور چار ہزار خاندانوں کی بے روزگاری کے ظالمانہ و انسانیت دشمن حربے و ہتھکنڈے بھی کپتان کے پائے استقلال کو متزلزل نہ کر سکے بلکہ اسے مزید مضبوط و توانا بنانے کا سبب بنے۔ مخالفین اور ان کے سہولت کاروں کو منہ کی کھانی پڑی جبکہ عوام کی ہمدردی و محبت عمران خان کے حق میں مزید بڑھ گئی۔ مخالفین کی دشمنی اور سازشوں کا طوفان ابھی بھی جاری و ساری ہے اور نہ صرف پی ٹی آئی کے لوگوں بلکہ عمران کی موافقت میں اظہار کرنے والے میڈیا اور اینکرز وی لاگرز کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو ظالموں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیتا ہے اور مظلوموں کو نجات کا راستہ عطاء ہوتا ہے۔
چین کے برطانوی سامراج کے تسلط سے آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کے قائد مائوزے تنگ نے نظم، عوامی جدوجہد اور انقلاب کے حوالے سے کہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جدوجہد کے دوران معروف جوان شاعر نقاش کاظمی نے اس نظم کا اردو ترجمہ آخری جنگ” کے حوالے سے کیا تھا۔
اٹھو سزائے بھوک کے نادار قیدیو
اٹھو زمیں کی گود کے بدبخت ساکنو
اٹھو کہ آنے والا ہے انصاف کا چلن
دنیائے بہترین جنم لینے والی ہے
آخری جنگ ہے، یہ جنگ آخری ہے
بس اب آخری ہے جنگ
حالات یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ عمران خان اس بات کا تہیہ کر چکا ہے کہ لٹیروں، نامقبول غاصبوں کے خلاف آخری جنگ کا فیصلہ ہو اور عوام کی طاقت سے وہ یہ جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ کپتان کا عزم و اعتماد اور عوام کی بھرپور حمایت، جدوجہد اپنی جگہ لیکن آج کی گلوبل سیاست میں بیرونی غلاموں اور سہولت کاروں کے آلہ کاروں سے چھٹکارا آسان مرحلہ نہیں۔ 48ء کے چین کے حالات اور 70ء کے پاکستان کے حالات کے برعکس آج کے حالات اس لئے مشکل ہیں کہ اس جدوجہد کیخلاف دائرہ کار عالمی سطح پر بھی ہو سکتاہے بلکہ شاید ہے بھی، سیاسی ہی نہیں بلکہ معاشی اور عالمی برتری سے بھی۔ عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے، وطن عزیز کے حوالے سے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ جب بھی کسی نے عوام کیلئے سر اٹھایا ہے تو جمہور اور جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ کپتان سر جھکانے والا نہیں اور آخری حد تک پاکستان اور عوام کی سربلندی کیلئے جانے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کا مزاج اس شعر کی تفسیر ہے!
آئو اس عہد کی تجدید کریں سب مل کر
سوئے مقتل بھی بہ انداز دگر جائیں گے
خدا کرے کہ حالات اس جانب نہ جائیں جہاں آخری جنگ کی نوبت آئے۔ حالات کی بہتری کا بہتر راستہ فوری اور شفاف انتخابات ہی ہیں ورنہ بساط جمہوریت لپیٹے جانے کا کھیل ایک بار پھر دہرائے جانے کے مہیب خطرات صرف شاید نہیں حقیقی ہی ہو سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here