کڑوڑ کمانڈرز اور عدالتی کھسرے!!!

0
51
شبیر گُل

گزشتہ ہفتے ہمارے انتہائی معزز دوست اکنا نیویارک کے امیر برادر طارق الرحمن (چیلے)کی والدہ کاانتقال ہوا۔ وہ اپنی والدہ کے جنازہ میں شرکت نہ کرسکے کیونکہ وہ بنگلہ دیش نہیں جاسکتے۔ ان کا قصور بنگلہ دیش تحریک میں پاکستان کی حمایت تھا۔ حسینہ واجد نے ہزاروں افراد کو جلاوطن رکھا ہے جنہوں نے پاکستان اور افواج پاکستانی کا ساتھ دینے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ آج بنگلہ دیش وجود میں آئے پچاس سال گزر چکے ہیں۔ وہاں جماعت اسلامی مسلسل زیر عتاب ہے۔ جماعت اسلامی کو فوجی ٹولے نے بنگلہ دیش میں استعمال کیا ۔ ایک لاکھ نوجوانوں نے البدر اور الشمس کے پلیٹ فارم سے پاک فوج کے ہر اول دستے کا کردا ادا کیا۔ تیس ہزار نوجوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔اور بوڑھے ہوکر بھی آج تک سزائیں بھگت رہے ہیں۔ جرنیلوں نے بنگلہ دیش میں وطن پرستی کے نام پر جماعت، اور جمعیت کو استعمال کیا۔ جماعت اسلامی اور بہاریوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ملک کو دو لخت کرنے والے اقتدار میں بھی رہے۔ فوجی ٹولے کے منظور نظر بھی رہے۔ کسی بھی ملک کا نظام چلانے کے لئے انصاف کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جہاں انصاف طاقتور کے گھر کی لونڈی اور آلو سبزی کیطرح نوجوانوں کا فروحت ہوتا ہو۔ وہاں معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔جہاں فوج ملکی خفاظت کی بجائے ملکی ادارے فتح کرنے پر لگ جائے وہاں انرجی، بدامنی اور معاشرتی بگاڑ جنم لیتا ہے۔ بیروزگاری، فریسٹریشن نے ملک کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کردیا ہے۔پاکستان سے نوجوان بھاگ رہے ہیں۔ پاکستان کی کریم ،ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینیرز اور بزنس کمئونٹی ملک چہوڑ چہوڑ کر جارہی ہے۔ کڑوڑ کمانڈروں نے ملک تباہ کردیا ہے۔ سروس کے دوران قیمتی پلاٹوں پر قبضہ جماتے ہیںریٹارمنٹ کے بعد ملک میں رہنا پسن نہیں کرتے۔ بیرون ملک جزیرے، پلازے اور شاپنگ مال خریدتے ہیں۔ جس ملک کو سروس دیتے ہیں۔ وہاں لوٹ مار کرکے ، انفراسٹرکچر تباہ کرکے باقی ماندہ زندگی دوسرے ممالک گزار دیتے ہیں۔اپنے ملک رہنا پسند نہیں کرتے۔ یہ طاقتور درندے ملکی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کیا تاریخ انکو معاف کرئے گی ؟ پھر ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ تاریخ مرتب کرنے ولے بھی یہی درندے ہیں۔ جنہوں نے نہ کوئی جنگ جیتی ہے اور نہ کوئی کارنامہ کیا ہے جسے تاریخ اپنے اوراق میں جگہ دے۔ خود ساختہ ہیروز ہمیشہ زیرو برآمد ہوتے ہیں۔ جرنل نیازی نے ہتھیار ڈالے، جرنل یحی نے ملک توڑا، جرنل ضیا نے سیاچین گنوا دیا۔ جرنل مشرف نے افغانستان جس خوف و دہشت کی آگ لگائی اسے ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ باجوہ نے کشمیر پر سودا کیا۔نہ انہوں نے کوئی جنگ جیتی اور نہ کوئی ایسا کارنامہ ادا کیا تاریخ کے اوراق میں جگہ پاسکیں۔ یہ قبضہ مافیا ہے جو قیمتی زمینوں کو ہتھیاتی ہے۔ حکومتوں کو گراتی ہے۔ من پسند ٹٹو لاتی ہے تاکہ انکا احتساب نہ ہوسکے۔ یہ ملکی وسائل پر قابض فورس ہے جو ملک کی جڑیں کہوکھلی کر تی ہے۔ کرپٹ سیاسی جانور انکی کی مٹھی میں ہیں۔ انکی فسطائیت حکومتیں گرانے، پارلمنٹ کو بلڈوز کرنے، اور مال جمع کرنے پر رہی ہے۔ کوئی جرنیل ایسا نہیں جس کی کڑوڑوں اربوں کی جائداد نہ ہو۔ اسی لئے قاضی حسین احمد مرحوم انہیں کڑوڑ کمانڈر کہا کرتے تھے۔ انکی پراپرٹیز اور جائدادیں دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے اے وطن کے سجیلے جوانو! سارے رقبے تمہارے لئے ھیں، سارے عہدے تمہارے لئے ہیں۔ سارے وسائل تمہارے لئے ہیں۔ ساری عدالتیں اور ادارے تمہارے لئے ہیں۔ عوام تو بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ آپ ھی وہ سپوت ہیںجو اپنے ھی ملک پر قابض فورس ہیںجنہوں نے ہمیشہ اپنے ھی ملک کو بار بار فتح کیا ہے۔ کبھی مذہبی جنونیت کو ہوا دے کر۔ کبھی سیاسی افراتفری پھیلا کر، کبھی معاشی پابندیاں لگوا کر ۔ لیکن آپکے رقبے بڑھتے رہنگے۔ کیونک آپ ھی اس ملک کے اصل وارث ہیںاور بیچاری بائیس کڑوڑ عوام لاوارث۔ پی ٹی آئی کے چئیرمین کو انتہائی بہونڈے طریقہ سے گرفتار کرکے اسٹبلشمنٹ نے پی ٹی آئی سے آہنی ہاتہوں سے نمٹنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا عمران خان کی گرفتاری پر اظہاری برہمی اور پھر اچانک عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے عن مطابق قرار دینا دراصل کسی جرنیل کے دبا کا نتیجہ ہے۔ جب عدلیہ کا کردار ایک طوائف سے زیادہ نہ ہو وہاں انصاف، قانون، اور اخلاقیات کوئء اہمیت نہیں رکھتے۔ جرنیل کبھی نواز شریف کو پالتے ہیںکبھی چوہدری خاندان کو۔ کبھی الطاف حسین کو پالتے ہیںاور کبھی عمران خان کو۔ پھر انہی کو نکال باہر کرتے ہیں۔ سول حکومتوں کو گرانے کی جرنیلوں کی بدمعاشیاں ختم ہونی چاہیں۔ہم نے ستر سال تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ہر ادارے کی تباہی کے پیچھے کوئی نہ کوئی ریٹار جرنیل بیٹھا ملے گا۔ شریفوں کو ریلیف، عمران کی گرفتاری نیب میں بیٹھے سابق فوجی آفیسر کی کارستانی ہے۔ جنہوں نے پی ڈی ایم کی کھربوں کی کرپشن رائٹ آف کرکے، ہمیشہ کیطرح ملک لٹیروں کے سپرد کردیا۔ملکی معیشت کی تباہی انہی جرنیلوں کی وجہ سے ہے۔ عوام کو اس بدمعاشیہ کے خلاف نکلنا ہوگا۔ حکومت گرنے پر انہیں ڈرٹی ہیری جیسے جرنیل یاد آتے ہیں۔ جب یہ جرنیل اپنے من پسند افراد کو اقتدار میں لاتے ہیں۔ تو چند دن کا ہنی مون ختم ہوتے ھی دونوں طرف ساس اور بہو میں لڑائی چل نکلتی ہے۔ جس کا نقصان معاشی بدحالی ، اداروں کی تباہی اور بدامنی کی صورتحال پیدا کرتا ہے قارئین ۔! گزشتہ ستر سال سے یہ عمل۔ بار بار دھرایا جا رہاہے۔
نہ جمہوریت پروان چڑھتی ہے اور نا ہی جرنیل عزت پاتے ہیں۔ان جرنیلوں کی لسٹ اٹھا کر دیکہیںتو اندازا ہو گا ۔ کہ انہیں اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پاکستان رہنا نصیب نہیں ہوتا۔ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جرنیل ریٹارمنٹ کے بعد عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ کون ہیںجو ملکی وسائل پر قبضہ جماتے ہیں۔ لٹیروں کو مسلط کرتے ہیںاپنی نگرانی مئں ن لیگی اور پی ٹی آئی کے انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ دلواتے ہیں۔ نوجوان بچوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں۔ امریکہ کی آگے ہمارے بچے بیچتے ہیں۔ دہشت گردی کے نام پر ڈالر وصول کرتے ہیں۔ یہ محب وطن اور باقی سب غدار قرار پاتے ہیں۔ یہ دھندہ اور گھنانا کھیل کب بند ہوگا۔ میرا ماننا ہے کہ کور کمانڈر ہاس پر حملہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ قوم جاگ گئی ہے۔ اب ان طالع آزما کڑوڑ کمانڈرز کا کھیل زیادہ دیر نہیں چلے گا اور نہ ہی کمزور عدلیہ کی طوائف الملوکی زیادہ دیر چلے گی۔ ملک کے بدمعاش جرنیلو ! ملک پر رحم کرو، ۔ قوم پر ترس کھا ۔ آرمی کو مضبوط کرو۔ اقتدار کے ایوانوں میں تانک جھانک چھوڑو۔ کبھی جن کا طوطی بولتا تھا ۔ وہ زیادہ بولنے یا پھڑ پھڑانے پر پر کٹوا لیا کرتے ہیں۔ عمران کی گرفتاری، اور تشدد اسی کا خمیازہ ہے۔ کسی کیا مجال کہ جرنیلی مافیا کہ سامنے آنکھ اٹھا سکے۔ کیونکہ یہی صرف محب وطن ہیںجو بار بار طالع آزمائی کرتے ہیں۔ کبھی ایک کو پالتے ہیںپھر دوسرے کو۔ بلی چوہے کا یہ کھیل خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔ ہمارے دوست معوذ صدیقی اپنے دوست طارق حبیب کآ خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ ایک پاکستانی ڈرامے کاڈائیلاگ مشہور ہوا تھا کہ جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو” ۔رہے نام مولا کااضافہ !!بھٹو سے نواز شریف تک نواز شریف سے الطاف تک الطاف سے عمران خان تک پیدا خود کرتے ہیں، مارتے بھی خود ہیں ۔گالیاں دلواتے بھی ہیں کھاتے بھی ہیں۔ مجاہدین سے فرقہ پرست مولوی سب ایسی کارخانے سے بنے اور اس کی بھٹی کا حصہ بنے۔ عمران خان بھی کبھی انکے منظر نظر تھے۔ انکے مونڈہوں پر بیٹھ کر اقتدار میں تو آگئے مگر انکے آگے آنکھ اٹھانے کی سزا انہیں معلوم نہ تھی۔ اسٹیبلشمنٹ ہر دس سال بعد ایک بندہ پالتی ہے۔ اس سے کام لیتی ہے پھر یو ٹرن لیتی ہے۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولنے کی سزا تو بحرحال ملے گی۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی عوام کا غیض و غضب دیکھ لیا ہوگاجس جگہ کوئی چڑی پر نہیں مار سکتی ، عوام نے وہاں توڑ پھوڑ کرکے اسٹیبلشمنٹ کی چولیں ہلادی ہیں۔ آئندہ چند روز ملکی حالات میں تلخ رہیں گے۔ آفاق خیالی صاحب لکھتے ہیںکہ اگر سنبھال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں۔ قارئین کرام!۔ اسٹیبلشمنٹ کا وطیرہ رہا ہے کہ سیاستدانوں کو لڑائو، تقسیم کرو، ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرو اور پھر یو ٹرن لے لو۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رہے گی ۔ ملک میں افراتفری اور بدامنی رہے گی۔ سیاسی قیادت کرپٹ اور چور ہے۔ آپس میں منقسم ہے، دست و گریبان ہے، اسلئے ان سے جان چھڑانا انتہائی مشکل ہے۔ ہماری لیڈر شپ کی غیرت اور عزت کا عالم یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے ائیرپورٹس پر ہمارے وزیراعظم کے جوتے، اور کپڑے اتار لئے جاتے ہیں جو گھر میں بے وقعت ہو کرباہر اسے عزت کہاں نصیب ہوتی ہے۔ اپنے ملک اور قوم کا وقار بلند کرنا ہے تو وطن کے سجیلے جوانوں اور انکے کے جوتے اُٹھانے والوں سے جان چھڑانا ہوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here