محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے محرم الحرام کی مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر کچھ ہمیشہ آپ کی خدمت میں لکھتا رہتا ہوں آج ایک منفرد تحریر نظر سے گزری جو عثمان غنی رانا نے تحریر اور شیئر کی جو اتنی دل اچھی لگی کہ آپ کے ساتھ من وعن نقل کررہا ہوں ملاحظہ فرمائیے ۔! ایک بہت ضروری بات!!
گزشتہ ہفتے میں بچے کی فرماش پر خشک میوہ کی دوکان پر گیا۔ ابھی میں نے باک کھڑا ہی کیا تھا کہ مجھے چٹاخ چٹاخ کی آواز سنای دی،میں نے دیکھا سامنے دوکان والا ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص کو تھپڑ رسید چکاتھا اور وہ شخص گال سہلاتے بیگ کو سنبھالتے آگے بڑھ چکاتھا،میں یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا۔ وہ تو اچھا ہوا بچہ اپنی چیزیں سنبھالنے میں مصروف تھا۔ ورنہ اس کے سینکڑوں سوالوں کا جواب دینا پڑتا، مجھے دیکھتے ہی دوکان دار نے مسکرا کر سلام کیا۔ اور پوچھا کیا چاہئے۔میں نے سلام کا جواب دیا اور کچھ بادام اور کاجو وغیرہ لیے۔ پھر میں نے اس سے پوچھا یہ کیا ماجرہ تھا آپ نے کیوں اسے تھپڑ مارا۔ وہ بولا بھای صاحب یہ شخص پرسوں بھی آیا، مختلف چیزوں کیریٹ پوچھتارہاساتھ چار پانچ دانے اٹھاکر کھاتابھی رہا، لیکن کچھ خریدے بغیر چلاگیا، آج بھی پہلے کھجوریں اٹھای، پھر چنے اٹھائے، پھر نمکو اٹھای اور اب چلغوزے کو ہاتھ ڈال رہاتھا، اب اسے تھپڑ نہ لگاتا تو میں کیا کرتا؟ احباب گرامی! ہم میں سے اکثرلوگوں کی عادت ہے کہ جب بھی کسی فروٹ کی دوکان بالخصوص ریڑھی پر جاتیہیں، میوہ جات کی دوکان پر جاتے ہیں، چنے،مونگ پھلی، چھلی وغیرہ کی ریڑھی پر جاتے ہیں بلاتکلف،بغیر ہچکچائے بغیر اجازت فروٹ، چنے،مونگ پھلی وغیرہ اٹھاکر کھالیتے ہیں۔ یہ انتہای بری عادت ہیں انتہای بداخلاقی ہے۔ بلکہ شرعا ایسا کرنا تو حرام ہے کیونکہ کسی کی چیز بغیر اجازت استعمال کرنا، کھانا، پہننا، لے جانا بالکل حرام ہے لیکن بالکل پرواہ نہیں کرتے۔
بظاہر چھوٹے اور معمولی دکھای دینے والے کام ہمیں حرام کاری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ مثلا بغیر اجازت! مسجد میں کسی کا جوتاپہن کربیت الخلا چلیجانا،
کسی کی چادر، ٹوپی، رومال، تولیہ استعمال کرنا ،کسی کا شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، صابن، جوتے کی پالش، میک اپ کا سامان، خوشبو وغیرہ استعمال کرنا۔ الغرض کسی دوسرے شخص کی کوی بھی استعمال کی چیز اسکی اجازت یا رضا کے بغیر استعمال کرنا ناجاز اور حرام ہے۔ البتہ اگر گھر کے افرادجنکے درمیان بے تکلفی ہے، یا روز ملنے والے بے تکلف دوست احباب ہیں جنہیں دوسرے شخص کے ناراض ہوجانے یا برا مان جانیکااندیشہ نہیں تو پھر عام اور غیر قیمتی چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن تقوی کا تقاضہ ہے کہ کسی بھی صورت میں بغیر اجازت استعمال نہ کیا جائے۔ نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا : عن بی حمید الساعدی، ن النبی صل اللہ علیہ وسلم قال: لا یحل لامرء ن یخذ عصا خیہ بغیر طیب نفس منہ، قال ذل لشد ما حرم اللہ من مال المسلم عل المسلم. صحیح ابن حبان: (رقم الحدیث: 5978، 316/3، ط: مسس الرسال) حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے فرمایا: کسی آدمی کے لیے اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اس کی دلی رضامندی کے بغیراٹھانا حلال نہیں ہے۔یہ بات آپ ۖ نے ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کے مال کی اللہ تعالی کی طرف سے حرمت کی سختی اورشدت کی وجہ سے ارشاد فرمائی۔
اس حدیث پاک میں طیب نفس کے الفاظ آئیہیں جنکا مفہوم ہے گہری دلی رضامندی یعنی ایسی رضامندی کہ ہلکا سا بھی مزاج میں تغیر آنے کا اندیشہ نہ گویااتنی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
یہی وہ بے احتیاطی ہے کہ آج کے سبک رفتار اور پرفتن دور میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہی بڑے بڑے ہنگاموں اور نارضگیوں کا باعث بن رہی ہیں۔دوسرا پہلوبھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوی شخص آپکی چیز اجازت کے بغیر استعمال کررہاہے تو مروت، مودت اور ایثار کا تقاضی یہ ہے کہ ناراضگی کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ دوسروں کے ساتھ احسان، بھای چارہ اور بھلای کا ارادہ کرلیا جائے۔
٭٭٭