فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
289

محترم قارئین! اب بنو ہاشم کے یتیم کہاں جائیں؟ کس کامنہ تکیں؟ کاشانہ نبوت کی وہ شہزادیاں جن کی عفت سرا میں روح الامین بھی بغیر اجازت کے داخل نہ ہوں۔ نسیم صبا بھی جن کے آنچلوں کے پاس پہنچ کر ادب کے سانچے میں ڈھل جائے۔ آج کربلا کے میدان میں کوئی ان کامحرم ہے جس سے اپنے دکھ درد کی بات کریں ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ہمارے ہاں ایک میت ہوجاتی ہے تو گھر والوں کا کیا حال ہوتا ہے ؟ غم گساروں کی بھیڑ اور چارہ گروں کی تلقین صبر کے باوجود آنسو نہیں تھمتے۔ اضطراب کی آگ نہیں بھجتی اور نالہ وفریاد کا شور کم نہیں ہوتا پھر کربلا کے میدان میں حرم کی ان سوگواروں عورتوں پر گزری ہوگی؟ جن کے سامنے بیٹوں، شوہروں، بھائیوں اور عزیزوں کی لاشوں کا انبار لگا ہوا ہو۔ جو غم گساروں اور شریک حال ہمدردوں کے جھرمٹ میں نہیں بلکہ خون خوار دشمنوں اور سفاک درندوں کے نرغے میں تھیں۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سر قلم کرنے کے بعد کوفیوں نے بدن کے پیرا ہن اتار لئے جسم اظہر پر نیزے کے بہت زیادہ زخم اور ساتھ ہی تلوار کے بے شمار گھائو تھے ابن سعد کے حکم پر یزیدی فوج کے دس نابکاروں نے سیدہ رضی اللہ عنھا کے لخت جگر کی نعش مبارک کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالا۔ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنھا اور حضرت شہر بانو رضی اللہ عنھا یہ لرزہ خیز منظر دیکھ کر بلبلا اٹھیں اور چیخ مار کر زمین پر گر پڑیں۔ اس کے بعد شمر اور ابن سعد دندناتے ہوئے خیمے کی طرف بڑھے اور بدتمیزی کی انتہا کردی۔ خیمے جلا دیئے اور سامان لوٹ لیا حضرت سیدہ زینب بنت علی رضی اللہ عنھا نے غیرت واضطراب کی آگ سے سلگتے ہوئے کہا: شمر! تیری آنکھیں پوٹ جائیں تو رسول اللہۖ کی بیٹیوں کو بے پردہ کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے چہروں کے محافظ شہید ہوگئے اب دنیا میں ہمارا کوئی نہیں ہے۔ یہ مانا کہ ہماری ظاہری بے بسی نے تجھے دلیر بنا دیا ہے لیکن کیا کلمہ پڑھانے کا احسان بھی تو بھول گیا؟ سنگ دل ظالم! نامو میں محمدۖ کی بے حرمتی کرکے قہر خداوندی کو حرکت میں نہ لا تجھے اتنا لحاظ بھی نہیں ہے کہ ہم اسی رسولۖ کی نواسیاں ہیں جس نے حاتم طائی کی لڑکی کو اپنی چادر اڑھائی تھی۔ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کی گرجتی ہوئی آواز سن کر سیدنا امام زین العابدین بیمار لڑکھڑاتے ہوئے اپنے بستر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور شمر پر تلوار اٹھانا چاہتے تھے کہ ضعف ونقابت سے زمین پر گر پڑے۔ شمر نے یہ معلوم کرنے کے بعد کہ یہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی آخری نشانی ہے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے بھی قتل کر ڈالو تاکہ حسین رضی اللہ عنہ کا نشان ہی دنیا سے مٹ جائے۔ لیکن ابن سعد نے اس سے اتفاق نہ کیا۔ اور یہ معاملہ یزید کے حکم پر منحصر کردیا۔ شام ہوچکی تھی یزیدی فوج کے سردار جشن فتح میں مشغول ہوگئے ایک پہر رات گئے تک سردار ونشاط کی محفل گرم رہی۔ ادھر خیمے والوں کی یہ شام غریباں قیامت سے کم نہیں تھی جرم کے پاسبانوں کے گھر میں چراغ بھی نہیں چل سکا تھا ساری فضا سوگ میں ڈوب گئی تھی۔ مقتل میں امام کا کچلا ہوا لاشہ بے گوروکفن پڑا تھا خیمے کے قریب گلشن زہرا کے پامال پھولوں پر درد ناک حسرت برس رہی تھی رات کی بھیانک اور درد خیز تاریکی میں اہل خیمہ چونک چونک پڑتے تھے۔ زندگی کی یہ پہلی سوگوار اور اُداس رات حضرت زینب اور شہر بانو سے کٹتے نظر نہیں آرہی تھی رات بھر خیمے سے سسکیوں کی آواز آتی رہی آہوں کا دھواں اٹھتا رہا اور روحوں کے قافلے اترتے رہے آج پہلی رات تھی کہ خدا کا گھر بسانے کے لئے اہل حرم نے سب کچھ لٹا دیا تھا۔ پردیس، چٹیل میدان، مقتل کی زمین، فلک وخون سے لپٹے ہوئے چہرے، میت کا گھر، بالیں کے قریب ہی بیمار کے کراہنے کی آواز، بھوک وپیاس کی ناتوانی، خونخوار درندوں کا نرغہ، مستقبل کا اندیشہ، ہجروفراق کی آگ، آہ! کلیجہ شق کردینے والے سارے اسباب مقتل کی پہلی رات میں جمع ہوگئے تھے۔
بڑی مشکل سے صبح ہوئی۔ اجالا پھیلا اور دن چڑھنے پر ابن سعد اپنے سپاہیوں کے ساتھ اونٹنی لے کر آیا۔ اس کی ننگی پیٹھ پر حضرت زینب، سہر بانو اور حضرت زین العابدین سوار کرائے گئے پھول کی طرح نرم ونازک ہاتھوں کو رسیوں سے جکڑ دیا گیا۔ عابد بیمار اپنی والدہ اور پھوپھی کے ساتھ اس طرح باندھ دیئے گئے کہ جنبش بھی نہیں کرسکتے تھے دوسرے اونٹوں پر باقی خواتین اور بچیاں اسی طرح رسیوں میں بندھی ہوئی سوار کرائی گئیں۔ اہل بیت کا یہ لٹا ہوا قافلہ جس وقت کربلا کے میدان میں رخصت ہوا۔ اس وقت کا قیامت خیز منظر ضبط تحریر سے باہر ہے واقعہ کربلا کے ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ خولی جگر گوشہ بتول کا سر مبارک نیزے پر لٹکائے ہوئے اسیران حرم کے اونٹ کے آگے آگے تھا۔ پیچھے ٧٢شہداء کے کئے ہوئے سر دوسرے اشقیاء لئے ہوئے تھے۔ خاندان رسالت کا یہ تاراج قافلہ جب مقتل کے قریب سے گزرا تو حضرت امام کی بے گوروکفن نعش اور دیگر شھدائے حرم کے جنازوں پر نظر پڑتے ہی خواتین اہل حرم بے تاب ہوگئیں۔ دل کی چوٹ ضبط نہ ہوسکی آہ فریاد کی صدا سے کربلا کی زمین بل گئی۔ عابد بیمار شدت اضطراب سے غش پہ غش کھا رہے تھے۔ اور حضرت شہر بانو انہیں کسی طرح سنبھالہ دے رہی تھیں۔ قیادت کا یہ دل گداز منظر دیکھ کر پتھروں کی آنکھیں بھی ڈیڈیا آئیں فاطمہ رضی اللہ عنھا کی لاڈلی بیٹی حضرت زینب کا حال سب سے زیادہ وقت انگیز تھا۔ اسیران حرم کا قافلہ اشکبار آنکھوں اور جگر گراز سسکیوں کے ساتھ کربلا سے رخصت ہو کر کونے کی طرف روانہ ہوگیا۔ شام ہوچکی تھی ایک پہاڑ کے دامن میں یزیدی سپاہیوں نے پڑائو کیا اسیران اہل بیت اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتار لئے گئے چاندنی رات تھی، رسیوں میں جکڑے ہوئے حرم کے یہ قیدی رات بھر سسکتے رہے پیشانی میں مچلتے ہوئے سجدوں کے لئے بھی ظالموں نے رسیوں کی بندھن ڈھیلی نہیں کی۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ نے بس اتنی خواہش کا اظہار کیا کہ میری گود میں کوئی میرے بابا جان علیہ السلام کا سر لا کر رکھ دے میں اسے اپنے سینے سے لگا لوں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here