واشنگٹن(پاکستان نیوز) مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنے مشترکہ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل اور سوچ میں تبدیلی کو سمجھا نہ گیا تو یہ ٹیکنالوجی پوری انسانیت اور انسانی تہذیب کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔ معتبر آن لائن تحقیقی مجلّے ”پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز” (PNAS) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے 17 مصنفین مختلف سائنسی موضوعات کے ماہر ہیں جن کا تعلق حیاتیات، نفسیات، اعصابیات اور ماحولیات سمیت کئی شعبوں سے ہے۔ ماہرین نے اپنے تمام نکات کو مجموعی طور پر ”بحرانی علم” (کرائسس ڈسپلن) کا عنوان دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت انسانوں کے باہمی رابطے نہ صرف بہت بڑھ چکے ہیں بلکہ ان کی پیچیدگی بھی ماضی میں انسانی سماج کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے۔ ”ہمیں خدشہ ہے کہ اگر وسیع تر انسانی پیمانے پر ٹیکنالوجی کے اثرات نہ سمجھے گئے تو ہم آنے والے برسوں میں کسی غیر ارادی اور غیر متوقع تباہی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں،” ماہرین نے لکھا۔ بحرانی علم (crisis discipline) کے تحت کسی ایک شعبے میں درپیش مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کیلیے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ماہرین مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسئلہ بیک وقت کئی شعبوں کو متاثر کررہا ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح (بحرانی علم) سن 2000 میں حیاتیاتی تحفظ کے ماہرین نے پیچیدہ ماحولیاتی مسائل کا ہنگامی اور مؤثر حل ڈھونڈنے کی غرض سے درکار وسیع البنیاد تحقیقی تعاون کیلیے وضع کی تھی۔ اس مقالے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آج ہم انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل پر ٹیکنالوجی کے اثرات سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ نہ صرف جمہوری بلکہ سائنسی ترقی میں رکاوٹوں کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔ انہوں نے کووِڈ 19 کی عالمی وبا میں غلط اور بے بنیاد خبروں کے وسیع تر پھیلاؤ، اور اس پھیلاؤ سے برآمد ہونے والے سنگین نتائج کو اس امر کی تازہ ترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔