سیاسی آزادی کب ؟

0
175
جاوید رانا

پاکستان کے وجود میں آنے کا مہینہ اگست شروع ہو چکا ہے، دنیا بھر میں پاکستانی قوم 76 واں جشن آزادی اور 75 ویں سالگرہ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے، کہنے کو تو یہ مہینہ قوم و ملک کیلئے مسرت، محبت اور یکجہتی کا بنتا ہے لیکن سوائے افسوس کہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں کالم کا آغاز اظہار افسوس و تعزیت سے کرنا پڑرہا ہے کہ یہ ہمارا انفرادی و قومی فریضہ ہے، باجوڑ میں تحصیل خار میں جے یو آئی کے انتخابی جلسہ میں خود کش دھماکہ میں ہماری تحریر لکھنے تک 56 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور سینکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ خار کے مقامی امیر بھی ہلاک ہوئے اور سیکرٹری شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اللہ کریم ہلاک شدگان کی مغفرت فرمائے، زخمیوں کو کامل شفاء عطاء کرے۔ آمین۔ اس سانحے نے لواحقین اور متعلقہ خاندانوں پر جو اثرات مرتب کئے ہیں وہ ناقابل تلافی تو یقیناً ہیں لیکن اس کیساتھ ہی موجودہ حالات میں عوام خصوصاً کے پی کے عوام کے حوالے سے نہایت تشویشناک بھی ہیں۔ اگر ہم گزشتہ دو عشروں میں 2008,2002ئ، 2011، 2014، اور 2018ء میں انتخابات سے قبل ہونیوالے یا اس تناظر میں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعات کو دیکھیں تو موجودہ سانحہ اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتا ہے جو ہمارے ازلی دشمن اور اس کے آلۂ کاروں کے مکروہ مقاصد کی بلا شبہ تصدیق کیساتھ ہمارے سیاسی خدشات اور قومی تشویش کا مظہر بھی ہے، ساتھ ہی یہ سیکیورٹی پر بھی سوالات اُٹھاتا ہے کہ اس حقیقت کو مد نظر کیوں نہیں رکھا گیا کہ اگست میں حکومت اور اسمبلیوں کی تکمیل یا تحلیل کے نتیجے میں ہونیوالی انتخابی سرگرمیوں کیلئے مدّون انتظامات کئے جائیں۔ بحث اس نکتہ پر کی جا رہی ہے کہ ذمہ داری وفاق پر آتی ہے یا صوبائی نگراں حکومت پر، ہماری عرض یہ ہے کہ ماضی میں ہونیوالے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جن میں اہم ترین سیاسی و قد آور شخصیات عوام حتیٰ کہ خواتین و بچے بھی دہشتگردی کا نشانہ بنتے رہے ہیں، آگے کیلئے متعینہ اور قابل عمل پالیسیوں سے کیوں غفلت برتی جا رہی ہے۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومتی ٹولہ جس کے اقتدار کی مدّت محض چند روز رہ گئی ہے، اسٹیبلشمنٹ کی شہ پر صرف ایک ہی نکتۂ پر عمل پیرا ہے کہ کسی بھی طرح عمران اور پی ٹی آئی کو آنے والے انتخابی پراسس سے باہر رکھا جائے۔ مقدمات، گرفتاریوں، نئی جماعتوں اور ٹولوں کی تشکیل اور عمران کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی سازشوں کیساتھ پارلیمنٹ میں ایک دن میں چار چار درجن بل پیش کئے گئے، انتخابی اصلاحات سے لے کر آرمی ایکٹ میں ترمیم اور انسداد دہشتگردی آرڈیننس لانے کا واحد مقصد عمران دشمنی ہی تھا مگر ہوا یوں کہ خود حکومتی اراکین نے ہی اس شیطانیت کی مخالفت کی۔ حد یہ کہ دہشتگردی آرڈیننس بل کی ن لیگ، پیپلزپارٹی سمیت تمام جماعتوں نے اس کی مخالفت کی کہ چیئرمین سینیٹ کو خود ہی یہ بل ڈراپ کرنا پڑا۔ اس بل میں سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کو شامل کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ عمران اور پی ٹی آئی کو کسی بھی صورت آنے والے انتخابی پراسس میں نہ آنے دیا جائے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ 9 مئی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کے جسٹس صفدر سلیم شاہد کے فیصلے نے حکومت و سرپرستوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ GHQ پر حملے کے حوالے سے مقدمے میں عدالت نے 10 نکات پر منحصر فیصلے کو عمران اور پی ٹی آئی کے حق میں دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ اس کیس میں مزید کسی سماعت کی ضرورت نہیں۔ معزز عدالت نے جو اہم نکات اٹھائے کہ GHQ حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا شناخت پریڈ میں فوج کی نمائندگی نہیں تھی، CCTV قبضے میں نہیں لئے گئے، ملزمان میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا اور سب سے بڑھ کر GHQ پر حملے کے وقت موجود سیکیورٹی عملہ نے مظاہرین کو کیوں نہیں روکا۔
ان نکات کے حوالے سے 9 مئی کے دیگر عدالتوں میں مقدمات بھی استغاثہ کو متاثر کرنے اور عمران و پی ٹی آئی کے حق میں امکان کا باعث ہو سکتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ن لیگ اپنی تمام تر کوششیں کسی نہ کسی طرح عمران کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے پر کر رہی ہے خود حکومتی اتحاد کی جماعتیں بشمول پیپلزپارٹی اس منطق سے اتفاق نہیں کرتیں اور تمام جماعتوں (پی ٹی آئی سمیت) کے انتخاب میں حصہ لینے کے حامی ہیں۔ ویسے بھی پی ڈی ایم سیاسی اتحاد نہیں اور ہر جماعت اپنی انتخابی کامیابی کیلئے کمر بستہ ہے۔ ہم نے اپنے ایک سابقہ کالم میں عرض کیا تھا کہ ساجھے کی ہنڈیا انتخابی مرحلے پر بیچ چوراہے میں پھوٹے گی۔ انتخاب کے پہلے مرحلے میں نگران وزیراعظم کیلئے ہی تنازعہ اب تک فیصلہ کُن نہیں ہو سکا ہے جبکہ نگران حکومت بننے کیلئے گنتی کے چند روزہ رہ گئے ہیں، خصوصاً دونوں بڑی جماعتوں میں رسہ کشی ہو رہی ہے جبکہ ہمارا پختہ یقین ہے کہ نگران وزیراعظم وہ ہوگاجسے اصل فیصلہ ساز چاہیں گے یعنی جسے پیا چاہے وہی سہاگن۔
یقین تو ہمیں اب بھی ہے کہ انتخابات ابھی بھی نومبر میں نہیں ہونگے اور بوجوہ انہیں آگے بڑھا کر نگرانوں سے ہی کام چلایا جائیگا۔10روز کے مہمان نااہل وزیراعظم کا نئی مردم شماری الیکشن کروانے کا اعلان اور وزیر خزانہ کا پیٹرول کی قیمتوں میں20روپے تک اضافہ ہمارے خیال کوتقویت دے رہا ہے۔ بہرحال جس وقت ہمارا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ آئے گا نگران وزیراعظم کے نام کا عقدہ کُھل چکا ہوگا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سیاسی و انتخابی صورتحال معمہ ہی رہے گی اور نتائج وہی ہونگے جو بقول خواجہ آصف مالکان چاہیں گے۔ اگر بالفرض انتخابات وقت پر ہو بھی جاتے ہیں تو نتائج کچھ اس طرح کے ہونگے جن سے کوئی واحد جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوگی اور مالکان (اسٹیبلشمنٹ) کی مرضی کے مطابق سہاروں کی مدد سے نظام حکومت و مملکت چلایا جائیگا۔ پاکستان کے 76برس گزرنے کے باوجود ہماری سیاست کی ڈگر اب وہی ہے جو سات دہائی پہلے شروع ہوئی تھی، خدا کرے ہمارے خدشات درست نہ ہوں اور آنے والا الیکشن شفاف، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہو اور عوام کی رائے کے مطابق عوام کے نمائندے کار حکومت چلائیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام سیاسی فریقین (بشمول پی ٹی آئی) کو یکساں مواقع میسر ہوں اور اگست 2023 منصفانہ سیاسی آزادی کا سال قرار پائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here