سندھ میں ڈاکوﺅں کے نام پر فوج کشی!!!

0
731
رمضان رانا
رمضان رانا

بنگال میں باغیوں، بلوچستان میں علیحدگی پسندوں، پختونخواہ میں دہشت گردوں اور سندھ میں ڈاکوﺅں کے نام پر ہمیشہ فوج کشی یا فوجی آپریشن جاری رہے ہیںجس میں غریبوں مسکینوں، بے بسوں اور بے اختیاروں کو مارا جاتا ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ عوام جب استحصالی نظام سے تنگ آجاتے ہیںتو وہ ہر قسم کا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیںجس کی بغاوت علیحدگی یا انقلاب کہا جائے تو مضحکہ خیز بند ہوگا۔جس کا واحد حل عوام کے ساتھ مساوی انصاف اور آزادی ہوتی ہے۔جس میں عوام کے تمام حقوق بحال ہوں۔سیاسی، معاشی اور سماجی انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔تاریخ میں ڈاکو ایک ایسا کردار سامنے آتا ہے کہ جو دن دیہاڑے دن کی روشنی اور لوگوں کی موجودگی میں مالدار،امیر، جاگیردار وڈیرے اور رسہ گیر پر حملہ کرکے مال لوٹتا ہے۔جس کو عام زبان میں ڈاکو کہا جاتا ہے جوایک چوری کی طرح چھپ چھپا کر حال نہیں چراتا تاہی عام آدمی کو لوٹتا ہے۔جن کا واحد ٹارگٹ ظالم جابر طبقہ ہوتا ہے۔جو عام عوام کا استحصال کرتا ہے جن کو حکومتی اداروں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک چور اور ڈاکو میں زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔چور چوری چھپے مال چراتا ہے اور باقاعدہ اپنے گھر میں استعمال کرتا ہے۔ضرورت پڑے توخفیہ طور پر دروازے توڑ کر کھڑکیاں توڑ کر یا فصلیں کاٹ کر چوری کرتا ہے۔جس کے پیچھے بھی بسا اوقات سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ ہوتے ہیںجو چور کو قانون کی گرفت سے بچانے نظر آتے ہیں۔جبکہ ڈاکو بے گھر بے در ہوتا ہے۔جو جنگلوں، بیانوں اور پہاڑوں کو ریگستانیوں مسکن بناتا ہے۔جس کے عالیشان مکانات اور محل نہیں ہوتے ہیں۔بے تحاشہ دولت لوٹتا ہے مگر نہ جانے وہ دولت کہاں چلی جاتی ہے۔پرانے زمانے میں ڈاکو مال و دولت لوٹ کر غریبوں میں بانٹ دیئے کرتے تھے۔آج بھی شاید ایسے واقعات ہوتے ہوں کہ سماج کے دھتکارے صوبوں کے غلام، عزت واحترام سے محروم اور عصمتوں دریوں کے شکار لوگ جب ڈاکو بن جاتے ہیں تو وہ ظالموں اور جابروں سے انتقام لیتے ہیں۔قتل وغارت گری کرتے ہیں۔ان کی دولت لوٹ کر غریبوں بے سہاروں اور تیموں میں بانٹ دیتے ہیںتاہم مغلیہ سلطنت اور برطانوی سامراج کے درد حکمرانی میں انہیں لوگوں کو باغی یا ڈاکو قرار دیا گیاجو وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے جس میں مغلیہ دور میں برطانوی راج میں سلطانہ ڈاکو ،بھگت ان باغی احمد خان کھرل اور دوسرے سینکڑوں آزادی پسندوں اور حریت پسندوں کے نام آتے ہیںجن کو باغی اور ڈاکو بنا کر پیش کیا گیا۔جو دراصل وطن کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔پاکستان میں بھی محمد خان ڈاکو کا نام لیا جاتا ہے۔جنہوں نے اپنے گھر والوں کے قتل پر یہ سلسلہ شروع کیا جن کو بعد میں سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس میں مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان نے حکمران جنرل ایوب خان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔بہرکیف ڈاکو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ امیروں جاگیردوں،سرمایہ داروں استحصالی طبقوں کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے جس میں غریبوں، بے کسوں، بے بسوں اور بے سہاروں کی مدد کرتا ہے۔جو آخر میں ایک دن طاقتور اداروں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔جن کی موت کے بعد کوئی بنگلہ، کوٹھی، محل نظر نہیں آتا ہے۔جس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوٹی ہوئی دولت کہاں جاتی ہے۔جس کا نشان جنگلوں، ریگستانوں، پہاڑوں اور بیانوں میں نہیں ملتا ہے۔اگر یہی عمل انقلاب کے لیے کیا جائے جس میں یہ تمام اقدام اور اعمال اپنائے جاتے ہیں۔جو ایسے لوگ جب کامیاب ہوتے ہیں تو انقلابی ناکامی میں باغی اور ڈاکو کہلاتے ہیں۔جن کے طریقہ کار میں فرق ہوتا ہے۔انقلاب میں عام عوام بھی شامل ہوتے ہیں۔وہ بھی استحصالی طبقات کا خاتمہ کرتا ہے۔جبکہ ڈاکو زنی میں استحصالی طبقے کا خاتمہ ناممکن ہوتا ہے۔جو بہت کم افراد کی جنگ ہوتی ہے جس کا دائرہ کار مخصوص وقت اور علاقے تک ہوتا ہے جو وسیع پیمانے پر بغاوت کا متبادل نہیں ہوتا ہے۔مگر دونوں اعمالوں میں پسے ہوئے عوام ہوتے ہیں۔جو استحصالی طاقتوں سے انتقام لیتے ہیں۔ظالموں اور جابروں کو قتل کرتے ہیں۔لاشیں سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں۔رائس زادوں اور چینی جاگیرداروں کو کھمبوں پر لٹکاتے ہیں۔اگر انقلاب کامیاب ہوجائے تو روس اور چین بن جاتا ہے۔ناکام ہوجائے افغانستان اور صومالیہ کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا ہے۔جس میں وار لارڈز بن کر سامنے آتے ہیں جس میں تبدیلی کی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچ جاتا ہے۔اس لیے فی الحال یہ ہمارا موضوع بحث نہیں ملے ہم سندھ کے ڈاکوﺅں کا ذکر رہے ہیں۔بحرحال ڈاکہ زنی کا زیادہ تر استعمال انتقام اور بدلہ کے دائر کار میں آتا ہے۔جس کے خلاف ریاستی طاقتور ادارے عام عوام کسانوں اور دہائیوں کو ناانصافیوں کے ازالے کی بجائے احتجاجیوں کا قتل وغارت گری کرتے ہیں۔جس کا مشاہدہ سندھ میں ہر روز ہوتا نظر آتا ہے۔کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کا راج کہلاتا ہے جن کے بارے میں مشہور کہ مجوزہ ڈاکوﺅں کو انہیں بااثر طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر ریاستی ادارے ڈاکوﺅں کے خلاف فوج کشی کرتے کیوں نظر آتے ہیں۔کئی ایسا تو نہیں کہ ڈاکوﺅں کے نام پر باغی غریبوں اور بے اختیاروں کو مارا جارہا ہو۔جنہوں نے سندھ کے وڈیروں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہوں۔جن کے گھر بار عورتیں غیر محفوظ ہوتی ہیں۔جو معاشرے کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ کہلاتا ہے جن کو ڈاکو بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔جو اپنے ساتھ زیادتیوں کا انتقام اور بچنے کے لیے بعض طاقتوں کا آلہ کار بن جاتا ہے۔جس کا جواب صرف یہی ہے کے جب تک پاکستان میں جاگیرداری نظام جیسا استحصالی نظام قائم رہے گا۔پاکستان میں ڈاکو پیدا ہوتے رہیں گے جن کے خلاف ظالموں اور جابروں کو بچانے کے لیے برطانوی راج کی طرح فوج کشی جاری رہے گی۔جس میں انسانیت کا قتل جاری رہے گا۔جس کے لیے زرعی معاشی اور معاشرتی اصلاحات کا نفاذ چاہئے ورنہ ڈاکو زنی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here